آپ کا ووٹ آپ کی طاقت


فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی۔عام الیکشن کا معرکہ برپا ہونے کو ہے۔ سیاست برطرف‘ یہ موقع ہے کہ شہری پاکستان کو باوقار ملک ، ترقی اور خوشحالی کی راہ پرگامزن کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکلیں۔آزادی سے اگلے پانچ برس کے لیے لیڈرشپ کا انتخاب کریں۔سامنے تین جماعتیں اور تین لیڈر ہیں ۔

نون لیگ اور تحریک انصاف میں ٹکر کا مقابلہ ہے۔ جیسے کے پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کی بقااور مستقبل کے فیصلے کا دارومدار پنجاب کے شہروں ، کھیتوں اور کھلیانوں میں ہونا ہے ۔ آدھی سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں اسی صوبے میں واقع ہیں۔

نون لیگ کی قیادت بالخصوص نوازشریف کے منظر عام سے غائب ہونے کے بعد تحریک انصاف کے لیے نسبتاً میدان صاف ہے۔ الیکٹ ایبلز کی ایک معقول تعداد ان کے ہمرکاب ہوچکی ہے۔ ریاستی اداروں نے بھی پی ٹی آئی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی۔

قوی امکان ہے کہ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم کا منصب سنبھال لیں گے لیکن یہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا تاج ہوگا۔اقتدار کی راہ داریوں تک رسائی پانے کے لیے عمران خان نے کیاکیا پاپڑ نہیں بیلے۔ دن رات کی ریاضت اور مسلسل محنت نے انہیں اقتدار کے بہت قریب کردیاہے۔

اگرچہ اقتدار کی جستجو میں وہ اپنی اصل شناخت بھی کھوگئے۔اب وہ انقلابی لیڈر نہیں بلکہ ایک روایتی سیاستدان بن چکے ہیں جو منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے دستیاب وسائل کا مہارت کے ساتھ استعمال کرنے کا ہنر جانتاہے۔ الیکشن کمیشن نے عالمی اداروں کے تکنیکی تعاون سے الیکشن کے دن دھاندلی روکنے کی قابل بھروسہ تیاری کررکھی ہے۔

تمام اسٹیک ہولڈر کی مرضی اور اشتراک سے الیکشن کا جو طریقہ کار وضع کیا گیا وہ دھاندلی کے امکانات کے خاتمے کی ضمانت فراہم کرتاہے۔بدقسمتی کے ساتھ الیکشن کے حوالے سے ملکی اور عالمی سطح پر مخاصمانہ ماحول بنادیا گیا ہے۔ جیسے کہ ’’میچ فکس‘‘ ہوچکا ہے۔

نون لیگ کی لیڈرشپ نے دھاندلی دھاندلی کاڈھنڈورہ پیٹ کر پہلے ہی سیاسی ماحول کشیدہ کردیاہے۔ سینٹر مشاہدحسین سیّد اور پرویزرشید نے سینٹ میں کہا کہ فوجی افسروں کی طرف سے ان کے پارٹی رہنماؤں ہی نہیں بلکہ کارکنوں کو بھی خطرہ ہے۔ سینئر سیاستدانوں کے دھاندلی اور عسکری اداروں کی الیکشن میں مداخلت کے الزامات نے عالمی ذرائع ابلاغ کو بھی اس پروپیگنڈا کا شکا رکردیاہے۔

دنیا کے معتبر ترین اخبارات اور جرائد‘ اکانومسٹ، وال اسٹریٹ جرنل اور لاس اینجلس ٹائمز نے الیکشن کی شفافیت پر شکوک وشبہات کا اظہار کیاہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ۔حنیف عباسی کے خلاف رات گئے آنے والے عدالتی فیصلے نے بھی نون لیگ کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا کی۔

ایسے اقدامات نے تحریک انصاف کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا۔ الیکشن سے قبل سیاستدانوں کا پارٹیاں بدلنا کوئی نئی بات نہیں۔ گزشتہ دس سال میں الیکٹ ایبلز نے متعدد بار گرگٹ کی طرح رنگ بدلا۔ نوازشریف کے ساتھی پرویزمشرف کے ساتھ ہمرکاب ہوئے۔ بعدازاں وہ دوبارہ نون لیگ اور آج کل کئی ایک تحریک انصاف کی کشتی کے ملاح بن چکے ہیں۔

عمران خان کے ساتھ اس طرح تن کر کھڑے ہوتے ہیں جیسے دھائیوں سے ’’انصافین ‘‘ ہوں۔ شریف خاندان پر افتاد ٹوٹی تو ان کا خیمہ اجڑ گیا۔ کل اگر عمران خان ڈلیور نہ کرسکے اور عوامی مقبولیت کھوگئے تو یہ پرندے کسی اور گھونسلے میں بسیرا کریں گے۔ سیاسی جماعتیں کمزور ہوں۔بے وسائل ہوں۔ تنظیم سازی پر توجہ ہو نہ نظریاتی اساس کا کوئی وجود ہو تو کیونکر لوگ پارٹیوں کے لیے اپنا مفاد قربان کریں۔

پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں خاندانی لمیٹڈکمپنیاں ہیں لہٰذا سیاستدانوں کی آمد ورفت جاری رہتی ہے۔کوئی برا محسوس نہیں کرتا۔ transition قوموں کی زندگی کا مشکل ترین مرحلہ ہوتاہے ۔ پاکستان میں اقتدار کا روایتی نظام دم توڑرہاہے۔ عمران خان نے دوجماعتی نظام کی قبر کھود کر اپنی عمارت اٹھائی ۔لوگوں نے ان کے بیانیے کو قبول کیا۔

ملک کے مقبول ترین سیاستدان بن کر وہ ابھرے۔ انہوں نے تعلیم ، صحت اور پولیس کی کارکردگی بہتر کرنے کا وعدہ کیا۔ان کا پیغام واضح اور دوٹوک تھا‘ لہٰذا شہریوں کے دل میں اتر تاگیا۔ افسوس! سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف تحریک انصاف بلکہ قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں کے خلاف بھی صف آراہونے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

عالمی پریس انہیں مسلسل کمک فراہم کررہاہے ۔ پاکستان کے اندر منفی سرگرمیوں کے لیے وسائل فراہم کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ مکرر عرض ہے کہ الیکشن کے بعد سیاسی طور پر مستحکم پاکستان کے امکانات کم اور سیاسی بے چینی اور انارکی کے امکانات بڑھانے کے لیے ماحول تیار کیا جارہاہے۔

نون لیگ کے قومی سلامتی کے اداروں سے ٹکر اؤکا مثبت نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا۔خطرہ ہے کہ سویلین بالادستی کی جدوجہد میںجو جمہوری آزادیاں دستیاب ہوں وہ بھی نہ داؤ پر لگ جائیں۔سیاسی ماحول مزید ٹکراؤ اور تصادم کا بن رہاہے۔

بدقسمتی کے ساتھ عسکری اداروں اور عدلیہ کا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا گیا۔ اس کا فائدہ بھی پی ٹی آئی کو ہوا لیکن نون لیگ مظلومیت کی چادر اوڑھ کر ہمدردی کی لہر پر سوار ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ الیکشن مہم میں اگر کوئی سیاستدان معقول اور معتبر شخصیت کے طور پر ابھر اہے تو وہ ہیں بلاول بھٹو ۔ان کی گفتگو ، انداز سیاست اور بدن بولی یہ باور کراتی ہے کہ وہ ایک تربیت یافتہ اور بالغ نظر سیاستدان ہیں ۔ادق موضوعات پر بھی اعتدال کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔پنجاب میں جہاں پیپلزپارٹی کا بوریا بستر گو ل ہوئے زمانہ بیت چکا تھا ‘کے طول وعرض کا انہوں نے دورہ کیا۔ ہرجگہ لوگ انہیں دیکھنے، سننے اور ملنے کو ہجوم درہجوم نکلے۔

اس الیکشن کا حاصل یہ لگتاہے کہ بلاول بھٹو نے پیپلزپارٹی کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو دوبارا کنارے لگادیا ۔ ان کے اندرپائی جانے والی عاجزی اور انسانی ہمدردی اور عوام سے محبت سے یہ آشکا رہوتاہے کہ پاکستان کو ایک اور لیڈرشپ ملنے والی ہے۔جو ملک کے لیے زنجیر کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ الیکشن ایک موقع فراہم کرتاہے جس دن شہری اپنی مرضی کے حکمران چن سکتے ہیں۔

بہت سوچ سمجھ کر پاکستان کا مفاد دیکھ کر ووٹ دیاجاناچاہیے۔ عمران خان ، شہباز شریف یا بلاول بھٹو تینوں اس ملک کے لیڈر ہیں۔ تینوں کی خوبیاں اور کمزوریاں عیاں ہیں۔

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس دفعہ عمران خان کو موقع ملنا چاہیے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہر ہ کرسکیں۔ اگر وہ وزیراعظم نہ بن سکے تو قلق رہے گا کہ کاش انہیں موقع دیا جاتا۔شاید وہ پاکستان کی تقدیر بدل دیتے۔

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood