کینیڈا کے پرندے انسانوں پر اعتبار کرتے ہیں


کینیڈا میں جب آپ کہیں آؤٹ ڈور کھانا کھاتے ہیں تو پرندے بڑی اپنائیت سے آ پکی پلیٹ سے کھا نا لے اڑتے ہیں۔ اگر اپنے ہاتھ پر کوئی کھانے کی چیز رکھ کر پرندوں کی طرف ہاتھ بڑھائیں اور خاموشی سے کھڑے رہیں تو پرندے بے خوفی سے کھانا اٹھا لیتے ہیں۔ پکنک پر جائیں تو پرندے بڑی بے تکلفی سے آس پاس گھومتے رہتے ہیں۔ بچوں کی پلیٹ سے کھانا تو ضرور لے جانا مناسب سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میپل سیرپ پیدا کرنے والے جنگل میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں کی انتظامیہ نے سب بچوں اور بڑوں کی ہتھیلیوں پر سورج مکھی کے بیج دھر دیے اور کہا کہ ہاتھ پھیلا کر خاموشی سے کھڑے ہو جائیں۔ سب نے ایسا ہی کیا اور تھوڑی دیر بعد پرندوں نے درختوں سے اتر کر ہماری ہتھیلیوں پر سے بیج لے جانے شروع کر د ئے۔

ابھی کچھ روز پہلے میں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک وڈیو پوسٹ کی تھی جس میں ایک تتلی بڑے سکون سے آ کر بار بار ہم پر بیٹھ جاتی تھی۔ یہ وڈیو ایک پارک میں بنائی تھی جہاں تتلیاں اتنی پر اعتماد اور بے خوف تھیں کہ انھیں انسانوں پر بیٹھنے سے خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔

پرندوں، تتلیوں اور جانوروں میں یہ بے خوفی ایسے ہی تو نہیں آ گئی ہو گی۔ آپ تصور کریں ان بے زبانوں کی جبلت میں انسانوں پر یہ ا عتبار قائم ہونے میں کتنا وقت لگا ہو گا، کتنے سو سال لگے ہوں گے۔ انسانوں نے کتنے عرصے میں اپنا اعتبار قائم کیا ہو گا کہ بے زبان چرند پرند کو معلوم ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔ انھیں کوئی خطرہ نہیں۔

چلیں جانے دیں یہ تو بے زبان، بے عقل جاندار ہیں آپ سوچیں انسانوں میں کتنے انسان ایسے ہوتے ہیں جن سے انسان ایسی بے خوفی محسوس کرتا ہے۔ ہماری ایک فطرت بن جاتی ہے دوسروں پر ا عتبار نہیں کرتے، کوئی اچھا بھی کرے تو اسے شک کی نظر سےدیکھتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہر شخص قابل اعتبار لگتا بھی نہیں پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ بغیر کسی کوشش کے ہی معتبر ٹھہر تے ہیں۔ انسان اپنی ہر بات بے خوفی سے کہہ دیتا ہے اس امید پر کہ انھیں ان کی کسی بات پر جج نہیں کیا جائے گا۔ اصل میں وہ کیا امر ہوتا ہے جوچرند پرند کو یا انسانوں کو بے خوف بناتا ہے۔
کیا انسانی معاشرے بھی اسی طرح ہوتے ہیں۔ انسان دوست اور محافظ معاشرے کا انسانی نفسیات پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اب کوئی لٹمس پیپر کا ٹیسٹ تو ہے نہیں کہ پتا لگ جائے کون قابل ا اعتبار ہے کون نہیں۔ یہ تو ہماری چھٹی حس ہی ہے جس کے بھروسے کسی پر اعتبار آتا ہے کسی پر نہیں آتا۔

چلیں چھوڑیں یہ ساری باتیں پیارے پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں عدم تحفظ، خوف، بے یقینی، غیر یقینی صورت حال۔ جانے انجانے خوف کوئی نئی بات نہیں۔ ان سب سے قوم کی کیا نفسیات بن رہی ہے اور غیر شعوری طور پر کیا گرہیں بندھتی جا رہی ہیں یہ کسی سے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن یہ سب کوئی ایک دن میں تو ہوا نہیں۔

ایک دلچسپ ریسرچ کے مطابق لوگ پر کشش لوگوں پر آسانی سے اعتبار کر لیتے ہیں اور تو اور پر کشش شخصیت کے حامل سیاست دان بھی زیادہ قابل بھروسہ سمجھے جاتے ہیں۔ مقابل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور نظر چرا کر بات کرنے والے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔

عوام جس کو قابل اعتبار سمجھیں اسے اپنا رہنما سمجھیں، قابل اعتبار اکثر قاتل اعتبار بھی ثابت ہو جاتے ہیں ہماری تو دعا ہے جو بھی نئی حکومت آتی ہے اپنے وعدے پورے کرے۔ پاکستانی عوام کی ذمہ داری ہے کہ اسے درست سمت پر رکھنے میں سب اپنا اپنا حصّہ ڈالیں۔ سب کی مشترکہ کوششوں سے ہی ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں بے خوفی ہو، یقین ہو اور ایک دوسرے کا ا عتبارہو بے زبان چرند پرند نہ سہی زبان رکھنے والے اشرف المخلوقات تو اپنے آپ کو محفوظ اور بے خطر سمجھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).