لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے


بڑے بوڑھے ایسے موقعوں پر کہا کرتے تھے، باولے گائوں میں اونٹ آگیا ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہتے۔ لیکن یہ دیکھ رہے ہیں اور خوش ہورہے ہیں کہ کس دھوم دھڑکے سے کوک اسٹوڈیو کا نیا سیزن آیا ہے۔ یعنی غالب کے بقول اس انداز سے بہار آئی، کہ ہوئے مہرو مہ تماشائی۔ واقعی ہم بھی تماشائی بن گئے۔ اور کیوں نہ ہو۔ فیس بک پر اطلاعات کی بھرمار ہے، دوست ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کررہے ہیں، لائک کا نشان بھیج رہے ہیں، کچھ نہیں تو سرخ رنگ کے دل اور انگوٹھے والا وہ نشان بھیج رہے ہیں جس کا مطلب ہماری سمجھ میں بڑی مشکل سے آیا ہے کہ ٹھینگا نہیں ہے بلکہ خوشی اور پسندیدگی کی نشانی ہے۔ چلیے مان لیا، آپ اس سے خوش ہیں تو انگلی نہیں، انگوٹھا سہی۔ اب تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اس کے اشتہار ٹی وی پر چلنے لگیں گے۔ مقرّرہ وقت پر طے ہے، جس چینل پر چاہے دیکھ لو اور اپنے آپ کو تسلّی دے لو کہ ہم دیکھیں گے۔ ہم یہی دیکھتے رہیں گے۔ فوری طور پر ایک فائدہ یہ ہوا کہ الیکشن کے طول طویل اور یکسانیت کے مارے اشتہاروں سے، جن کو دیکھ کر جی اوبھ گیا تھا، ذرا دیر کو نجات ملی، الیکشن کے اشتہار تو خیر موسم کے پھول تھے، ان کو چند دن میں اپنی بہار جاں فزا دکھا کر مُرجھا جانا تھا مگر یہ اشتہار چلتا رہے گا اور ہم دیکھے چلے جائیں گے۔

خیر، میں پہلے ہی مان لوں کہ میں نے بڑے اشتیاق سے دیکھا۔ سب کی طرح میں بھی کوک اسٹوڈیو کا مداح ہوں۔ بلکہ اب تو کہنا چاہیے پرانا مداح ہوں، پہلے سیزن سے دیکھ رہا ہوں۔ اس کے گانے شوق سے سنتا چلا آیا ہوں۔ اور میں کیا، میرے گھر والے، دوست احباب سبھی سنتے آئے ہیں۔ اگر میں کبھی اپنی پرسنل پلے لسٹ بنانے بیٹھوں تو شاید اس میں سے ایک نہیں، کئی گانوں کا انتخاب کروں۔ اتنا پرانا مداح ہونے کی وجہ سے میں مایوس ہوں تو میرا خیال ہے مجھے اس کا حق بھی پہنچتا ہے۔ پرانے تعلق پر چوٹ بھی تو زیادہ لگتی ہے۔

بعض تحفے بن مانگے بھی مل جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی دوست نے اس گانے کا لنک بھیجا۔ فیض احمد فیض کی طرح میں بھی اس دوست کو حبیبِ عنبر دست کہہ سکتا ہوں مگر خوشبو کا یہ تحفہ فیض صاحب کو جیل میں بھجوایا گیا تھا۔ آج کل کے سیاسی حالات میں جیل کے بارے میں فقرے بازی یا قیاس آرائی نہیں کروں گا۔ کہیں کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ شیر کی دھاڑ سے آواز ملا رہا ہوں۔ خیر، جیل کی باتیں چھوڑیے، فیض صاحب کی طرف آجائیے۔ فیض صاحب کا بے حد قائل ہونے کی وجہ سے یہ گانا سن لیا اور دستورِ زمانہ کے مطابق فوراً لائک کا بٹن دبا دیا۔ میں نے تو یہ گانا اقبال بانو کی آواز میں سنا تھا اور پسند بھی بہت تھا۔ اقبال بانو کے بعد بہت لوگوں نے گایا جیسا کہ اتنے مقبول ہو جانے والے نغموں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ مجھے خاص طور پر شہرام اظہر کی آواز میں یہ گانا پسند آیا۔ وہ باقاعدہ گلوکار سے زیادہ یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں، ایک عرصے میرے رفیق کار بھی رہے ہیں اور نغمے کی انقلابی روح کو سمجھ کر گاتے ہیں۔

کوک اسٹوڈیو والی نئی پیشکش میں سننے کے ساتھ دیکھنے کو بھی بہت کچھ ہے۔ ایک نئے انداز کی medley بنائی گئی ہے جس میں مختلف گلوکار ایک ایک سطر ادا کرتے ہیں، ان کا انداز بھی الگ ہیں اور ثقافتی طور پر ملک کے الگ الگ علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ثقافتی ہمہ ہمی اور رنگا رنگی اچھی لگی۔ لیکن یہ تکلیف دہ یاد دہانی بھی کہ الگ الگ مُصرع جڑ کر اکائی نہیں بنتے، الگ ہی رہتے ہیں۔ پھر ان میں وہ انقلابی روح ہوا ہوگئی۔ بدلتے چہروں کی رنگین رفتار میں آپ سرتال پر غور کرتے ہیں اور نا الفاظ پر۔
ایک کے بعد ایک کئی دوستوں نے یہ نغمہ سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع سے بھیجنا شروع کیا بلکہ لین ڈوری باندھ دی تو پھر کچھ نہ کرنے کے کسی لمحے میں، مَیں نے دوبارہ سُن لیا۔ مجھے لگا کہ ذرا جلدی ختم ہوگیا۔ مگر ہوا کیا ہے، میں پھر نہیں سمجھا۔ ایک نوجوان دوست کا میسیج آیا کہ غور سے سنیے، اس نغمے کا حشر نشر کر دیا ہے۔ اب جو سُنا تو جیسے غضب ہوگیا۔ غصّے سے بڑھ کر تکلیف اور مایوسی کی لہر تن بدن میں دوڑ گئی۔ ظالموں نے جیسے میری آنکھوں میں بسا ہوا پرانا خواب نوچ کر پھینک دیا۔ بقول شخصے، پرزہ پرزہ پھیتی پھیتی کر دیا۔ بلکہ بقول ایک اور شخصے، میرا دماغ بھنّوٹ ہوگیا۔ ایک تیر سینےمیں مارا کہ ہائے ہائے۔

ہم دیکھیں گے، یہ فیض کا کام ہے، لوح دل پر لکھا ہو نہ لکھا ہو میرے دل پر نقش ہے اور میں ان دنوں کی کیفیت سے الگ نہیں کرنا چاہتا جب میں نے پہلے پہل سُنا تھا۔ میرا کالج کا زمانہ ضیاء الحق کی حکومت کا عہد تھا جب دستور زبان بندی تھا مگر ہمارے ولولے اور حوصلے زندہ تھے، جس کا اظہار فیض کی شاعری سے پیوستہ تھا۔ برگزیدہ اور وطن سے دور فیض ہمارے عہد کے لیے بڑے شاعر ہی نہیں ایک تہذیبی اور سیاسی آئکن (icon) بھی تھے، اپنے عہد کی تصویر اور اس کو معنی عطا کرنے والے۔ اس دور کی شاعری میں وہ پہلے جیسا دم خم چاہے نہ رہا ہو (میں نے اس پر تبصرہ بھی کیا تھا جو کسی ظالم نے فیض صاحب تک پہنچا دیا مگر وہ جب ملے تو اسے بھول بھی چکے تھے!) مگر ان کی صورت میں امید زندہ تھی اور یہ لگن کہ اس شمع کو حلقہ کیے بیٹھے رہیں۔ ضیاء الحق کے عروج کا زوال نہیں شروع ہوا تھا کہ کسی محفل میں اقبال بانو نغمہ سرا ہوئیں۔ انھوں نے گانا شروع کیا، ہم دیکھیں گے۔ اس نغمے کو پہلی دفعہ سننے کی اپنی کیفیت میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ جیسے خون میں سنسناہٹ دوڑنے لگی ہو اور کسی نے دل کو مٹّھی میں بھینچ لیا ہو۔ ایک لمحے کے اندر ضیاء الحق جیسے ستم گر آمر معزول ہوگئے اور وعدے کی کرنیں پھوٹنے لگیں__ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!

ہم اہل صفا، مردودِ حرم__ جیل میں بند طالب علم اور صحافی، کوڑے کھانے والے سیاسی کارکن، جبر و بندش کے وہ طریقے جن کا مجھے پوری طرح احساس بھی نہیں تھا، جدوجہد، تکلیفیں، پریشانیوں، محروم__ سب ایک وعدے میں ڈھل گئے۔ جب تخت اچھالے جائیں گے، جب تاج گرائے جائیں گے۔ جس دن کا وعدہ ہے۔

فیض کی شاعری بند کتاب تو رہی نہیں۔ اس کے بارے میں بہت لکھا گیا ہے اور مزید لکھا جائے گا۔ آغا ناصر نے بعض کلیدی نظموں کا واقعاتی پس منظر اپنی کتاب میں بیان کیا ہے اور پروفیسر لد میلا واسئلوا نے فکر و سوانح کو مرحلہ وار ترتیب دیا ہے۔ ان دونوں اہم کتابوں میں اس نظم کا ذکر موجود نہیں ہے۔ علی مدیح ہاشمی نے فیض کی سوانح عمری انگریزی میں لکھی ہے، اس میں ناشر کی کاٹ چھانٹ کا ذکر ہے جس پر فیض ناراض ہوگئے تھے مگر اس نظم کے حوالے سے نہیں۔ افتخار عارف نے فیض کا کچھ کلام ان ہی کے خط میں مرتّب کرکے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں یہ نظم فیض صاحب کے قلم سے تحریر شدہ موجود ہے۔ اس کے آخر میں امریکہ، جنوری ۷۹ء بھی لکھا ہوا ہے۔ فیض صاحب نے جو مصرعے خود اس نظم میں لکھے، اب ان کو نکال پھینکنے کی ایسی کیا ضرورت پڑ گئی؟
جلد ہی یہ نغمہ اس قدر مقبول عام ہوگیا کہ کیا سوشل میڈیا کا مرہونِ منّت کوک اسٹوڈیو بھی ایسی شہرت حاصل نہیں کرسکے گا۔ اقبال بانو بڑے بانکپن سے گاتی تھیں، محفل محفل لوگ ان کی آوازیں آواز ملاتے تھے اور نعرے مارتے تھے۔ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں آواز روشن تھی، امید زندہ تھی!
یہ اس طرح کی مقبولیت نہیں تھی جو مہدی حسن اور نور جہاں کی آواز میں فیض کے کلام کو حاصل ہوئی تھی۔ دلکش تو وہ بھی بہت تھے مگر ہم دیکھیں گے کہ بات ہی کچھ اور تھی۔ وہ جو بات تھی، کوک اسٹوڈیو نے چھین لی۔ صرف لائک نہ کیجیے، ذرا ہمّت کرکے دوبارہ سنیے۔ مگر اقبال بانو کی آواز میں۔ اس میں یہ بند بھی سنائی دے گا جسے کوک اسٹوڈیو کے قہرمانوں نے کاٹ کر پھینک دیا۔
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اٹھوائے جائیں گے
جب اہلِ صفا مردودِحرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے۔۔۔
پہلے تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان کو یہ اختیار کس نے دیا کہ فیض کے کلام میں جو کلاسیک کا درجہ اختیار کرچکا ہے، کاٹ چھانٹ کر دیں؟ یہ حق فیض کے کاپی رائٹ رکھنے والوں کو بھی حاصل نہیں ہے۔ یہ کوئی لارا لپّا قسم کا گیت نہیں ہے کہ مرضی سے جہاں چاہاگھٹا دیا جہاں چاہا بڑھا دیا۔ کوک اسٹوڈیو والوں نے اس سے پہلے احمد فراز کی غزل میں کسی او رشاعر کے اشعار ٹانک کر گوا دیے مگر وہ بدمزاقی تھی۔ یہ بدنیتی ہے۔ ذرا غور کیجیے تو اس کی وجہ بھی سمجھ میں آرہی ہے۔ آپ فیض کی شہرت اور نام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر فیض نے جو بات کہی ہے، اسے پوری طرح ادا بھی نہیں کرسکتے۔ توڑ مروڑ کر رکھ دیا۔ گویا فیض کا کلام نہ ہوا وہ پرانے شعر والی توڑا مروڑی کی انگیا ہوگئی۔ ضیاء الحق کو فنا ہوئے مدّت ہوگئی مگر یہ کمپنی والے آج بھی فیض کےکلام سے ڈر رہے ہیں۔ آخر کیوں، کس لیے اور کب تک؟ کیا ارضِ خدا کے کعبے سے بُت اٹھوانے سے خوف آرہا ہے؟ حالاںکہ غور کیا جائے تو یہ اس انقلاب سے وابستہ تھا جو اسلام کی اشاعت سے آیا اور اب جس کا ذکر بھی اس کے بہت سے نام لیوا پسند نہیں کرتے۔ کیا یہ چاہتے ہیں کہ بُت اپنی جگہ سے اٹھوائے نہ جائیں؟ یا پھر مردودِ حرم کے مسند نشیں ہونے کے امکان سے ڈرگئے۔ دھرتی کو اب تو دھڑ دھڑ دھڑکنا چاہیے۔ بجلی بھی کڑ کڑ کڑکے گی۔ اس بند کے آخری مصرعے بالکل واضح ہیں۔ تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالےجائیں گے تو ہمارے دور کا کارپوریٹ سیکٹر کیوں لرزہ براندام ہے؟ اب کون سے تاج و تخت رہ گئے ہیں؟ یا پھر ہمارے دور کے فرعونوں کو پہچان لیا ہے اور ان کے تاج و تخت کی سلامتی چاہتے ہیں۔ اس نظم میں فیض نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے اتفاق نہیں ہے تو اتنا تام جھام اکٹھا کرکے پھر اس کے گوانے کی ضرورت کیا تھی؟ کسی اور نغمے کی درگت بنا لیتے۔ آپ کے لیے تو بہت دروازے کُھلے ہیں۔
میرے دوست، خاص طور پر نوجوان دوست اتنی بڑی بے ایمانی کو سمجھے بغیر اس لنک کو لائک کیے جارہے ہیں اور فارورڈ کیے جارہے ہیں، قصور ان کا بھی نہیں۔ ان کو کیا پتہ کہ فیض نے اصل میں کیا لکھا تھا اور اس وعدے کے معنی کیا تھے۔ ہم بے خبری کو بڑھاوا دیے جارہے ہیں۔ سمجھیے کہ زخموں پر کوک چھڑک رہے ہیں۔
ظالمو! فیض نے جس دن کا وعدہ یاد دلایا ہے اس کا اعتبار تو ہم سے نہ چھینو۔ اس اعتبار کا آج بھی سہارا ہے۔ ہم آج بھی اس دن کے دیکھنے کے منتظر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).