تھر میں مرے مور


\"ibarhimآگ کے گولے کی مانند سوا نیزے پر آیا ہوا سورج، پیروں کے نیچے تپتی ریت، کوے کی آنکھ نکالنے جیسی گرمی اور جسم کو چھلنی کرنے والی دھوپ۔ یہ موسم گرما کا تھر ہے، سردی میں اس خطے کا تعارف بدل جاتاہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں بھی یہاں پینے کا پانی ڈھونڈنا ناممکن نہ بھی ہو لیکن مشکل ضرور ہے۔ پانی کی تلاش میں تھر کی رانیوں کو ریت، ٹیلوں اورڈہروں کا ایک سمندر عبور کرنا پڑتا ہے، اس تلاش میں نکلنے کے بعد اگر کہیں سایہ دار درخت کی چھانوں نصیب ہو جائے تو اس سے بڑی خوش قسمتی اور کوئی نہیں۔

پاکستان کے وسیع العریض علاقے تھر میں، جہاں ہے تو بھوک ہے، غربت ہے اور محرومیوں کی نا ختم ہونے والی داستان ہے، دکھوں کے دیس کے بادشاہ تھر پر سندھ کے البیلے عاشق شاعر حلیم باغی نے لکھا کہ\’\’ میرے تھر کا حال پوچھو گے، رو ہی دوگے، رو ہی دو گے\’\’۔

تھر کی یہ بھوک اب انسانوں کے ساتھ ساتھ موروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے، ایک طرف ماؤں کی کوکھ میں مہینوں کی بھوک کاٹنے کے بعد جنم لینے والے معصوم بچے دم توڑ رہے ہیں تو دوسری طرف حسین شاہزادوں جیسے پرندے مور بھی تیزی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ پورے تھر میں اب موروں یا مور جیسے بچوں پر موت کا راج ہے۔

دو سال پہلے رانی کھیت جیسے مرض میں مبتلا ہو کر تین سے چار سو مور مرگئے، گذشتہ ایک ماہ میں ایک سو سے زیادہ مور مرنے کی خبریں سامنے آ چکی ہیں۔ لیکن وائلڈ لائیف ڈپارٹمنٹ پہلے بھی \’\’موت برحق ہے\’\’ کہہ کر چپ رہی اور اب بھی ان کا تردیدوں پر ہی زور ہے۔ مور کی موت پر سرکار کو کیا کہنا ہے، وہ تو بچوں کی اموات پر بھی اپنے دفاع میں دلیلوں کی تاویلیں باندھنے سے نہیں تھکتی۔ حالی ہی میں وزیراعلیٰ سندھ نے اسلام آباد میں یہ بیان دیا کہ \’\’بچے صرف تھر میں مرتے ہیں کیا؟ اسلام آباد کے بڑے ہسپتال پمز میں بچے نہیں مرتے؟\’\’۔ لیکن صرف رواں سال کے پانچ ماہ میں تھر میں تین سو سے زیادہ بچے فوت ہونے کی خبریں رپورٹ ہوئی ہیں، ان کا کیا جائے؟

تھر قحط کی لپیٹ میں ہے۔ بظاہر بڑے بڑے وعدے، بیان، نعرے، اور کمیشن کے اعلانات اور ان کی سفارشات ہیں لیکن زمین پر وہی بھوک، ویرانہ، افلاس، قحط سالی، پیاس، وبائی امراض، ویرانے اور اداسیاں ہیں۔ یہ ہی سب کچھ تھر کی پہچان بن چکے ہیں لیکن اسی تھر کی ایک اور مثبت پہچان مور بھی ہیں۔ مور جن کو خوشی، خوشحالی، محبت، ہریالی اور خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حسن کی اس علامت کے مرنے کے بعد تھر میں واقع کیا رہ جاتا ہے؟ تھر کے دیہات میں خوشیاں موروں سے جڑی ہوئی ہیں۔ تھر کا مارو صحافی کھاٹاؤ جانی کہتا ہے کہ\’\’ تھر کے گاؤں گوٹھوں میں گھروں کے آنگنوں سے موروں کا ٹہلنا، ناچنا اور ان کی بولیوں کو نکال لیا جائے تو تھر میں اداسی، ویرانی اور نارسائی کے سوا کیا بچے گا\’\’۔

\"000010\"قحط سالی کو اگر صحراؤں کا مقدر ہی مان لیا جائے پر وہاں بھی ان شہریوں کا سہارا ریاست ہوتی ہے۔ لیکن جب ریاست، سرکار اور حکمران وہاں لوگوں کے سروں سے ہاتھ اٹھا کر انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیں تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اب کی بار تھر سے صرف بادل، بجلی اور میگھ ملہار ہی نہیں روٹھا بلکہ ریاست، حکومت اور حکمران بھی منہ پھیر چکے ہیں اور تھر باسی کہتے ہیں ہم اگلے انتخابات میں ہی ان کو دیکھ سکیں گے۔ قحط کا جائزہ لینے کے لئے صوبائی حکومت کی قائم کردہ کمیشن نے پورے ضلع کو قحط زدہ قرار دینے کی سفارش بھی کردی ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ اور اب تو تھری کہتے ہیں کہ جون جولائی میں بارش آ جائے گی، اب سرکار نے کوئی فیصلہ کر بھی دیا تو فائدہ کچھ نہیں۔ اس خالی اعلان سے نہ بچوں کی اموات رک سکتی ہیں نہ موروں کی موت کے آگے بندھ باندھا جا سکتا ہے۔

کسی زمانہ میں مور کا تھر پر راج ہوا کرتا تھا، پر تھر سے موروں کے بچوں کی غیر قانونی منتقلی، اسمگلنگ نہ ٹوٹنے والا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس کا کبھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، مور اتنا حساس ہوتا ہے کہ اگر اس کو پکڑا جائے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ بڑا مور تھر سے باہر لے جانے میں یہ ہی رکاوٹ ہے، اس لئے اس کی اسمگلنگ کا طریقہ کار ان کے بچوں کو اغوا کرنے کا ہی رہ جاتا ہے۔ تھر کے مور کے بچوں کی فرمائشیں پورے ملک سے ہوتی ہیں۔ مجھے لاہور، راولپنڈی اور

مری تک کئی دوست یہ فرمائشیں کرتے ہیں۔ مور بھلے ہی بھارت کا قومی پرندہ ہو لیکن میرے گاؤں کے سپاہی دو موروں کا تحفہ دے کر اپنے بالا افسر سے دو ہفتے کی چھٹی آسانی سے لے کر گاؤں میں ٹھاٹ سے گھومتے رہتے ہیں۔

مور شاید دنیا کا وہ واحد پرندہ ہے جس کو ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان عزت اور احترام دیتا ہے۔ مور کا گوشت نہیں کھایا جاتا لیکن اس کے پر کو مندر اور مسجد میں بڑے احترام سے رکھا جاتا ہے۔ مندروں میں مورتیوں کی صفائی مور کے پروں سے بننے والے جھاڑو سے کی جاتی ہے۔ آپ کو کئی مزار اور درگاہیں مور کے پروں سے سجی ملیں گی۔ مسلمان عورتیں گھروں میں مور کے پر قرآن پاک کے اوراق میں رکھتی ہیں۔ اس طرح تمام مذاہب کی مقدس کتابوں میں مور کے پروں کے لئے گنجائش موجود ہے۔

تھر میں تو مور گاؤں میں رہنے والوں کا محافظ بھی ہے، سانپ، پئیں، لنڈی اور ہر قسم کی بلا کا دشمن مور باسیوں کی راتوں کی نیند کا امین ہے، بے ضرر پرندے کی دشمنی بھی تو دیکھیں اور تھر کے رھنے والے کہتے ہیں کہ جہاں مور ہوتے ہیں وہاں سانپ بلائیں اپنا مسکن تبدیل کر دیتے ہیں۔

\"Wildاب تو تھر باسی موروں کے مرنے کی خبریں سننے کے عادی بن گئے ہیں ورنہ تھر کے گاؤں ور وائی کے کسی بزرگ نے مجھے بتایا تھا کہ پہلے مور کی مرنے پر فاتحہ خوانی بھی کی جاتی تھے۔ تھر کے مور سب کے مور ہوتے ہیں، سب ان کو کھانا پینا دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں، مور کا کوئی ایک مالک نہیں ہوتا، لیکن مور سب کی میراث ہوتے ہیں۔ اگر کوئی مور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں میں چلا بھی جائے تو اس کی واپسی کی کوششیں نہیں ہوتیں پھر اس گاؤں والے اس مور کے مالک بن جاتے ہیں۔

مور پر تحقیق کرنے والے امریکی ماہرین نے جنرل آف ایکسپریمنٹل بایولوجی میں بتایا کہ مور اپنی مادہ مورنی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے خوبصورت پروں کو پھیلاتا ہے اور جب مورنی کو ان پروں میں آنکھ نما چیز نظر آتی ہے تو وہ سارا دھیان اس طرف کردیتی ہے۔

مور کے پروں اور خاص طور پر اس کی پونچھ پر جو آنکھ نما نشان ہیں، ان کے بارے میں یونانی حکایت بھی بڑی لطیف ہے، کہا جاتا ہے کہ مور کے پروں میں ایک سو آنکھیں ہیرا دیوی کے چوکیدار آرگس کی ہیں، قصہ یہ ہے کہ زیوس دیوتا ایک پجارن لو پر عاشق ہوا، اس کی بیوی ہیرا نے اپنے ملازم آرگس کی ڈیوٹی لگا دی کہ لو پر نظر رکھے۔ ایک سو آنکھوں والا دیو ہیکل آرگس جب یہ حکم بجا لایا تو زیوس دیوتا نے اس کو مارنے کی ٹھان لی۔ بین کی دھن پر آرگس کو ہپناٹائز کرنے کے بعد اس کا کام تمام کردیا، لیکن ہیرا جس کو اس سارے منصوبے کا علم تھا اس نے ایک دن پہلے ہی آرگس کی آنکھیں نکال دیں تھیں۔ آرگس کے مرنے کے بعد وہ آنکھیں اس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مور کی دم میں لگا دی گئیں۔

تھرپاکر میں وائلڈ لائیف ڈپارٹمنٹ کے ریجن افسر کا تو اب بھی یہ ہی دعویٰ ہے کہ مور کسی بیماری سے نہیں مرے بلکہ بیکٹریل اور وائرل سے زیادہ موسمی اثر سے مر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حفاظت کے لئے انہوں نے پہلے ویکسینیشن کی۔ پھر لوگوں میں آگاہی دینے کے لئے مہم چلائی۔ آخر میں پیکاکورینٹائن سینٹر قائم کیا جس میں پولٹری ڈاکٹر رکھے گئے۔ ایک لمحے کے لئے سب درست مان لیا جائے لیکن اب اس سینٹر میں نہ کوئی ڈاکٹر ہے نہ دوسرا عملہ، انچارج اشفاق میمن کا کہنا ہے اب ایسی خطرے کی صورتحال ہی نہیں تو ڈاکٹررز کی ضرورت ہی نہیں، ان کو بھی تو سرکاری ملازمت کرنی ہوتی ہے۔

وائلڈ لائیف کے مطابق تھرپاکر میں ایک لاکھ کے لگ بھگ مور موجود ہیں۔ وہ دعویٰ تو مور شماری کا کرتے ہیں لیکن ان کی بقا اور افزائش کا کام خدا پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لطیف سرکار کہتے ہیں کہ

سارے مور مرگئے اور ہنج نہ رہا کوئی،

ان کے آشیانوں پر گدھ آ کر بیٹھے ہیں

موروں کی رکھوالی کا کام گدھ کے حوالے رہا تو پھر تھر میں مور نایاب نسل بن کر رہ جائیں گے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar