فارم 45، سجناں نے بوئے اتھے چک تان لئے۔ ۔ ۔


الیکشن کے نتائج پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نئے پاکستان کو ابھی سے نئی محاذ آرائی کا سامنا شروح ہوگیا ہے۔ اگر کراچی کی بات کی جائے تو یہاں کے نتائج حیران کن نہیں مشکوک ترین ہی ہوگئے ہیں۔ فارم 45 نہ ملے تو شاید ایسے ہی نتائج آتے ہیں جس میں ہارنے والے سے زیادہ جیتنے والا شرمندہ دکھائی دیتا ہے۔ ان سب حالات میں سوال الیکشن کمیشن کی ساکھ پر اٹھ رہا ہے اور کیوں نہ اٹھے کوئی بھی عقلمند شخص ابھی تک نتائج تسلیم نہیں کر پارہا کہ اکیس میں سے بارہ نشستیں تحریک انصاف کی جھولی میں ووٹوں کے بڑے بڑے فرق سے ڈال دی گئیں۔ شاید اتنے لاڈ پیار کی تو تحریک انصاف کو بھی امید نہ تھی اور ایسا ہوا بھی ہے کہ جب جیتنے والے امیدواروں سے بات ہوئی تو وہ تھوڑے الجھے سے دکھائی دیے۔

بھئی بات صاف سی ہے 2013 کے انتخابات میں پونے پانچ ارب رہوپے خرچ ہوئے جبکہ اس بار 21 ارب روپے الیکشن کی قیمت ہے اور حال یہ ہے کہ رات سے ہی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ نون لیگ نے نتائج مسترد کردیے تو ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، پی ایس پی، متحدہ مجلس عمل اور دیگر جماعتیں بھی الیکشن کمیشن کے کردار پر سوال اٹھا رہی ہیں۔ اب ذرا سوچیں ناں ایم کیو ایم جب بھی الیکشن میں کھڑی ہوتی تو لاکھ لاکھ ووٹ کی برتری سے ان کے امیدوار کے ماتھے پر تھوڑی دیر کو پسینہ آجاتا کہ اتنا ووٹ پڑا ہے کیا اتنی بڑی آبادی کی نمائندگی میں کوتا ہی ہوئی تو روز محشر کتنے ہاتھ گریبان پر آئیں گے پھر کان میں ساتھی بھائی سرگوشی کرتا کہ بھائی انگوٹھے نے بھی کل معافی مانگ لی تھی کہ بس کردے کسی اور بھی ٹھپے کا موقع دیدے تو پریشان نہ ہو۔ لاکھ کی برتری بھائی کو سکون دیتی ہے اور بھائی کے سکون سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔

وہ بھی کیا وقت تھا جب کسی کو یہ مجال نہ ہوتی کہ کیسے تمہارا امیدوار لاکھ کی برتری لے گیا۔ اس سے یاد آیا 2013 کے انتخابات میں، میں جیو کے الیکشن ہیڈ کوارٹر میں موجود تھی اور اس بات پر ملال کر رہی تھی کہ ووٹ نہ دے سکی۔ شام تک مجھے معلوم ہوا کہ میں نے اور میرے مرحوم ابا حضور نے دوپہر میں ہی کسی وقت ووٹ کاسٹ کر کے اپنا قومی فریضہ سر انجام دے دیا ہے۔ اس الیکشن میں صبح سویوے پولنگ اسٹیشن جانے سے پہلے پولنگ کیمپ سے پر چی بنوانے گئی تو ابو کا شناختی کارڈ نمبر بتاکر تلاش کیا کہ کیا اس بار بھی وہ حق رائے دہی استعمال کریں گے تو بہت ڈھونڈنے سے بھی ان کا نام نہ ملا۔ تھوڑا ملال ہوا کہ آج جلد ی آگئی تو ابو کہ آنے کے امکانات ختم ہوگئے۔ لیکن سمجھ یہ آیا کہ ووٹر لسٹ شاید کچھ بہتر بن گئی ہے۔

خیر جب ووٹ ڈالنے گئے تو سرکاری کالج کی بلڈنگ کے خوب چکر لگوائے گئے بالاخر جب پولنگ بوتھ ملا اور ووٹ کاسٹ کیا تو ساڑھے نو بجے بیلٹ باکس میں ڈلنے والا پہلا ووٹ میرا ہی تھا وہ الگ بات ہے کہ رات گئے تک وہاں ہزاروں ووٹ پڑ چکا تھا خیر کیا کہہ سکتے ہیں۔ میں نے رپورٹنگ اسی حلقے سے شروح کی وہی کے لوگوں سے بات چیت کی۔ صبح سویرے خواتین روتے دھوتے چڑچڑاتے بچے گود میں لئے ووٹ ڈالنے آئیں تو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ خواتین نے آج کے دن کو چھٹی کے طور پر نہیں لیا بلکہ اسے قومی فریضہ سمجھتے ہوئے وقت نکالا۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں فیلڈ رپورٹنگ کے دوران کئی ایسے مناظر دیکھے جس کی مثال پچھلے تیس برسوں میں نہیں ملتی۔ پولنگ اسٹیشن کے احاطے سے تھوڑا دور ہجوم میں لوگوں سے بات چیت کی تو سب نے کھل کر اپنی پارٹی کے نام لئے اور بتایا کہ وہ کسے ووٹ دیں گے۔ یہ پہلے نہیں ہوتا تھا صر ف ایک پارٹی ہی کا نام لیا جاتا تھا مخالف تو وہاں دکھائی بھی دیتا تھا۔ اس بار ایسا نہیں تھا۔ سب اپنی مرضی سے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے آئے اور کسی پر کوئی جبر اور خوف نہیں تھا۔ نیو نیوز کراچی کے بیورو چیف علاءالدین خانزادہ جو صحافت کے شعبے سے پچھلے تین دہائیوں سے وابستہ ہیں اور اپنے تند و تیز سوالات اور چبھتے تبصروں کے سبب صحافی برادری میں مقبول بھی ہیں ان کا خوف کی شکست پر ایک دلچسپ تبصرہ ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ بہت اچھا ہوا اور نہیں بھی ہوا کل خوف کو شکست ملی تو سب نے کھل کر اپنی مرضی سے ووٹ ڈالا لیکن جو نتائج آرہے ہیں اس سے نئے ووٹر کا بھروسہ ٹوٹ جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی والوں نے 1985 کے بلدیاتی انتخابات میں کھل کر ووٹ دیے تو ایم کیو ایم کو شاندار کامیابی ملی۔

کون بھول سکتا ہے وہ گھی سے جلے چراغ جو ایم کیو ایم نے اپنی جیت کی خوشی میں شہر بھر میں روشن کیے۔ اس کے بعد اس بار کراچی والوں نے کھل کر ووٹ دیا اور اپنی مرضی سے دیا۔ جو بھی ہوا الیکشن کی شفافیت چھ بجے تک پولنگ کا عمل ختم ہونے تک نظر آئی۔ لیکن سوال اٹھتا ہے اس کے بعد جب کئی جگہوں سے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالنے کے واقعات سامنے آئے۔ نتائج میں تاخیر ہوئی اور کراچی سے وہ تمام پارٹیان جن کی جانب سے امید تھی کہ ان کا ووٹ کٹے گا لیکن وہ پھر بھی جیت جائیں گے وہ سب ہی کٹ گئے۔

معروف صحافی اور الیکشن کے ماہر افتحار احمد نے الیکشن سے قبل یہ کہا تھا کہ انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہو لیکن اس بار کراچی میں خوف کو شکست ضرور ہوئی ہے۔ جو خوش آئند بات ہے۔ بحیثیت رپورٹر میں نے کل یہ دیکھا کہ اس بار ایک ہی گھر سے مختلف ووٹ ڈالے گئے۔ کوئی پارٹی بسیں گاڑیاں بھر کر ووٹر کو نہیں لے گئی۔ اس بار مرحومین کو بھی اپنی آخری آرام گاہ میں الیکشن کی چھٹی منانے کا موقع ملا۔

کہیں کوئی 88 سالہ نابینا بزرگ شمس الدین انصاری سہارا لے کر ووٹ ڈالنے آئے تو کہیں معذور حمیدہ خاتون کی وہیل چئیر پولنگ اسٹیشن میں داخل ہوئی تو کئی نوجوانوں کے سست وجود بھی جاگ گئے۔ جب اکہتر برس کے رحمان صاحب نے کہا کہ ووٹ اس ملک کی امانت ہے اس شہر کو بدلنے اور روشنیوں کے شہر میں بدلنے کے لئے نوجوانوں کو نکلنا ہوگا ووٹ دینا ہوگا تو کئی ایسے افراد جو گھر میں صرف ٹی وی پر کوریج سے لطف اندوز ہورہے تھے انھیں بھی اس بات نے ہمت دلائی کہ اس بار ووٹ پاکستان کو دینا ہے اور رنگین انگوٹھے کی تصویر کی تشہیر کر کے بتانا ہے کہ میں نے اپنا قومی فریضہ ادا کردیا۔

سب نے کل اپنا فرض پورا کیا۔ ایک ووٹ کی قیمت شاید برسوں سے جیت کا تاج سجانے والوں کے سامنے کچھ نہ ہو لیکن اس بار لوگوں نے اس امید سے اپنا ووٹ دیا کہ شاید کچھ بدلے گا۔ سب کو آزمانے کے بعد اب کسی اور کو موقع دینا چاہیے کہ وہ کچھ اچھا کر جائے۔

لیکن افسوس ناک پہلو یہ کہ شہریوں نے تو اپنا فرض پورا کرلیا لیکن نتائج پر سے اعتماد اٹھنے پر اداروں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جو کوشش 88 سالہ شمس بابا اور ہیل چئیر پر آنے والی حمیدہ خاتون نے کی اور نوجوانوں میں روح پھونکی وہ اب تاخیر، مزاحقہ خیز نتائج اور بے یقینی کے سبب دھندلے پڑتے دکھائی دے رہیں ہیں۔ اب تو صرف یہ نظر آرہا ہے کہ کراچی میں ہارنے والے سے زیادہ جیتنے والا شرمندہ شرمندہ سا دکھائی دے رہا ہے۔ اور یہ سوال کہ اگر فارم 45 مل جاتا تو کیا یہ ہی نتائج آتے جو اس بار آئے ہیں اگر ایسا ہوجاتا تو شاید سجںاں بھی کھل کر جیت کا جشن مناتے دکھائی دیتے؟

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar