ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے


عمران خان کے پاس الیکشن کی صورت میں اقتدار میں آنے کا یہ شاید آخری موقع تھا، ان کے لیے یہ میک یا بریک کی صورتحال تھی۔

آج اپنی پہلی تقریر میں جن مسائل کا، جس احسن طریقے سے انہوں نے ذکر کیا ہے، وہ ایک عام، غریب اور مڈل کلاس طبقے کا دل جیت لینے کے لیے کافی ہیں، بلکہ ان کے الفاظ کسی بھی باشعور انسان کا دل جیتے کے لیے کافی ہیں۔

دھاندلی اور ملکی فوج کی طرف سے حمایت جیسے الزامات پر ابھی بہت عرصہ بات ہوتی رہے گی لیکن سر دست ایک نیوٹرل شخص کے دل میں امید پیدا ہوئی ہے کہ کچھ بدلے گا یا کوئی کچھ بدلنا چاہتا ہے۔

ایک چیز جو مجھے واضح نظر آ رہی ہے وہ کرپشن کے خلاف جنگ ہے۔ میری نظر میں عمران خان پر خود کرپشن کے کیس نہیں ہیں، ان کی اپنی فیکڑیاں نہیں ہیں، ان کا اپنا خاندان سیاست میں نہیں ہے، لہذا وہ اس کا خیال رکھے بغیر کہ کل کو یہ میرے ساتھ کیا کریں گے، بلا جھجک انسداد بدعنوانی کی مہم چلانے کی پوزیشن میں ہیں۔

یہ تقریر افغانستان سمیت بھارت کے لیے بھی ایک امید کی کرن ہے۔ بھارت اور افغانستان کے حوالے سے خان صاحب کا موقف بالکل نواز شریف جیسا ہی ہے۔ انہوں نے بھی چند برس پہلے یہی بات کی تھی لیکن بعد ازاں “حالات” نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔

خان صاحب کی تقریر کے برعکس پاکستان کے مسائل ستر سال پرانے ہیں، انہیں چار برسوں میں ختم کرنا نا ممکن ہے۔ لیکن اگر عمران خان صاحب پاکستان کے مسائل کو سیدھی سمت میں ہی لے جانے میں کامیاب ہو گئے تو میری نظر میں یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی کیوں کہ پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ دنیا کے مشکل ترین انتظامی ڈھانچوں میں سے ایک ہے۔

خدا نہ کرے اگر عمراں خان بری طرح ناکام بھی ہوئے تو یہ ناکامی مسلم لیگ نون کی ناکامی سے زیادہ بدتر نہیں ہو گی۔ لیکن اس تبدیلی سے، آج کی تقریر سے ایک مبہم سی امید ضرور پیدا ہوئی ہے کہ کچھ بدل سکتا ہے۔ اس ملک میں تقریر کرنا جس قدر آسان، اس کے مسائل حل کرنا اتنا ہی پیچیدہ اور ایک مشکل امر ہے ۔

جب پرویز مشرف صاحب نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے بھی ایک سات نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا تھا، جو آج خان صاحب کے ایجنڈے سے کچھ ملتا جلتا تھا۔ میاں شہباز شریف صاحب کے بقول اگر پرویز مشرف اس ایجنڈے پر عمل درآمد کر لیتے تو مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتوں کی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن ہونے کا خدشہ تھا۔ شاید اب بھی خان صاحب کی تقریر سن کر شہباز شریف صاحب نے ایسا ہی کچھ سوچا ہو۔

اس وقت مشرف تو بری طرح ناکام ہوئے تھے کیوں کہ انہیں اقتدار میں رہنے کے لیے کرپٹ سیاستدانوں کی ضرورت تھی اور وہ کمپرومائز پر کمپرومائز کرتے چلے گئے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس حوالے سے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟ وہ مشرف کے برعکس نتائج فراہم کر سکتے ہیں لیکن یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ خان صاحب کس حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں؟

مجھے یہ یقین تو ہے کہ پاکستان کے حالات کبھی نا کبھی ضرور بدلیں گے۔ لیکن اس مرتبہ ماضی کی طرح پھر ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے، جو شاید مسلم لیگ نون کے دوبارہ آنے سے نہ پیدا ہوتی۔

اور شاید خان صاحب کی طرح یہ پاکستان کے لیے بھی میک یا بریک کا آخری موقع ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).