پاکستان کی ضائع شدہ نسلیں اور انقلاب


پاکستان کو پاکستانی الیکشن کے ذریعہ فتح کر لینے پر راقم محمکہ زراعت اور پاکستان ڈیمز ڈیپارٹمنٹ کو بالخصوص مبارکباد پیش کرتا ہے اور پرسوں سے اس انتظار میں ہے کہ سیٹھ۔ میڈیا کے اک المشہور اینگر پرسن کے بچوں کا چوری ہونے والا دودھ اب نہر کی شکل میں کب میرے گھر کے سامنے سے بہے گا۔ نئے پاکستان میں دودھ کی نہر کے ساتھ ساتھ اگر میرے گھر کے سامنے سے المشہور گنڈا پوری شہد کی نہر بھی بہا دی جائے تو راقم تاقیامت محکمہ اور پاکستان ڈیمز ڈیپارٹمنت کا شکر گزار رہے گا۔

طنز برطرف، مگر محترم جناب عمران نیازی صاحب کی جماعت کی ”فتح“ نے حیران سے زیادہ پریشان کیا۔ پریشانی ذاتی نوعیت کی بالکل نہیں تھی۔ بلکہ وجہ یہ بنی کہ اس سے میرا انسان اور اس کے معاشرتی ارتقاء کے تصور پر ایمان ڈگمگا گیا۔ میرا خیال تھا، جو کہ اب نہیں رہا، کہ پاکستان، دیگر ممالک کی طرح بھی سیاسی، معاشرتی اور سماجی ارتقاء کے سفر میں آگے کی سمت بڑھ رہا ہے، جبکہ مؤرخہ 26 جولائی کو جب نیند کے خواب ختم ہوئے تو دانت مانجھنے سے پہلے ہی معلوم ہو گیا کہ جناب بٹ صاحب جولائی 1977 میں واپس پہنچ چکے ہیں۔ صرف طریقہء واردات اور کردار مختلف ہیں۔

دو دن کی پریشانی، سوشل میڈیا اور اصل زندگی میں بھی تحریک انصاف کے جانثاران کی ہُو ہاؤ نے بھی دماغی شور میں اضافہ کیے رکھا، تو خدا بھلا کرے میرے اک پرانے پڑھاکو دوست کا جنہوں نے میری توجہ، تقریبا 15 برس قبل برٹش سپائی فکشن کے دیوتا، جناب جان لی کارے (John Le Carre) کی جانب دلوائی۔ اور میری شورش کا مسئلہ حل ہو گیا۔

محترم کارے صاحب کی اک کتاب ہے Our Game جس کو آپ پاکستانی پنجابی تناظر میں، محکمہ زراعت کی ”ساڈی کھیڈ“ کے نام سے ترجمہ کر سکتے ہیں۔ اس کتاب کے دو مرکزی کردار ہیں، لیری پیٹیفر (Larry Pettifer) اور ٹِم کرینمر (Tim Cranmer)۔ محترم ٹم صاحب، برٹش سیکرٹ انٹیلیجنس سروسز کے عہدیدار ہیں، جبکہ جناب لیری صاحب ان کے اک ایجنٹ ہیں۔ سرد جنگ کے اختتام پر برٹش سیکرٹ انٹیلیجنس سروسز ان دونوں اصحاب کو بہت آسانی سے فراموش کر چکی ہے اور یہ دونوں اب اپنی ذاتی زندگی میں اپنے ذاتی بیانیے کو دوبارہ سے تخلیق کرنے کے مخمصے میں ہیں۔ پیشہ وارانہ تعلق میں یہ دونوں اک دوسرے کو ذاتی طور پر بھی جاننا شروع کر دیتے ہیں، اور شخصی انسیت کا اک تعلق بھی بن جاتا ہے۔ اک دن پھر لیری صاحب، اک دم ہی پردہ سکرین سے غائب ہو جاتے ہیں اور کہانی کا تانا بانا اسی کے اردگرد بنا گیا ہے۔

جناب کارے کی تمام کتب ہی پڑھنے والی ہیں۔ جادو باندھ دیتے ہیں، تو اس کتاب میں ٹِم صاحب کی خودکلامی میں چند سطریں پڑھنے والی ہیں۔ یہ سطور یاد آئیں تو وطن عزیز میں موجود دو جوان۔ ترین نسلوں کا معمہ اک لمحہ میں حل ہو گیا۔ ان سطور کا قریب ترین ترجمہ آپ تمام کی نذر کرتا ہوں:

”تو ان لوگوں (برٹش سیکرٹ انٹیلیجنس سروسز) نے کیا سوچا کہ لیری کون تھا۔ کیا لیری، لیری تھا، میرا لیری تھا، یا ہمارا لیری تھا؟ اس نے ایسا کیا کر دیا تھا۔ اس کی پیسے کے بارے میں بات، اپنے بارے میں بات، روسیوں کے بارے میں بات، ہیرا پھیریاں، چیچیف (رشئین ایجنٹ) کے بارے میں بات، پھر اپنے بارے میں بات، سوشلزم پر تبصرہ، وہ خودپسند تھا۔ آخر کو جو ہم نے لیری کو بنایا، وہ اس کے علاہ اور کیا بن سکتا تھا: اک بے سمت برطانوی مڈل کلاس انقلابی، اک مستقل اختلاف کرنے والا، اک غیرسنجیدہ شخص، خواب دیکھنے والا اور ہر بات کو عادتاً مسترد کرنے والا، اک بے رحم، شک سے بھرا، خرافات کا رسیا، ضائع شدہ، آدھا اور غیر اہم تخلیق کار، اک ناکام شخص۔ بہت چالاک کہ جاری گفتگو کو ختم نہ ہونے دے اور بہت ضدی کہ اس جاری گفتگو سے اختلاف بھی کرتا رہے۔ “

معاملہ ایسے حل ہوتا ہے کہ سنہ 1990 کے آس پاس، اُسی دہائی یا اس کے بعد پیدا ہونے والا پاکستانی نوجوان، مطالعہ سے کتنی محبت کرتا ہے، وہ پاکستان میں شائع ہونے والی کتب کی تعداد ہی بتانے کے لیے کافی ہے۔ یہ نوجوان پاکستانی تاریخ سے کتنا واقف ہے، اس کے لیے اس کا مطالعہ پاکستان ہی کافی ہے۔ یہ گفتگو، اسلوب، اختلاف کرنے کے کتنے سلیقے سے واقف ہے، اس کے مظاہرے تقریبا ہر روز ہی دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اشاریے (Indicators) اور بھی ہیں، مگر لکھے گئے یہ دوچار نکات اک سطحی تعارف بہرحال مہیا کرتے ہیں۔

تو صاحبو، یہ نوجوان جب آٹھ سے بارہ سال کا ہوا تو سید مشرف صاحب کا مبارک انقلاب پاکستان میں تشریف لایا۔ آٹھ سے بارہ سال کی عمر میں اس نے اپنی زندگی کا شعور سنبھالتے ہوئے سیاسی طبقات اور پاکستان میں شہری آزادیوں کی جدوجہد کرنے والوں کی ”غداری“ کی کہانیاں پڑھی اور سنیں۔ پھر سید مشرف صاحب کے مقدس دور میں سیاستدانوں اور پاکستان کے اصل حکمرانوں سے اختلاف کرنے والے تمام طبقات پر وہی پرانا بیانیہ سنا، جس کو مزید بڑھانے کے لیے اشتہاروں کے ذریعے روپیہ بنانے والے سیٹھ۔ میڈیا نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ پھر سنہ 2011 میں خدا بھلا کرے، محترم جناب عمران نیازی صاحب کا ظہورِ مکرر ہوا، اور اس بیانیے میں مزید شدت اور شور آ گیا۔

پاکستانی گوئبلز نے اصلی جرمن گوئبلز کو بھی شرما دیا اور سماجی و شہری آزادیوں کی خواہش اور خواب رکھنے والی اکثریت کو ویسے ہی Dehumanize کیا جیسے اصلی گوئبلز نے کیا تھا۔ آج پاکستانی میڈیا پر آپ کو ہر چینل سیاستدانوں کی پیروڈی کرتا نظر آئے گا، جبکہ سید مشرف صاحب کی پیروڈی کرنے والے اک پروگرام میں سے وہ کردار ہی غائب کروا دیا گیا، جو آج تک غائب ہے۔

ہر وہ نسل جو تنقیدی شعور سے محروم رہی، وہ ضائع رہی۔

یہ ضائع شدہ نسلیں ہیں جو گوئبلیئن بیانیہ کی بنیاد پر ہر اس شخص کو گھٹیا، ملک دشمن، غدار اور کرپٹ سمجھتی ہیں جو کسی مقام پر آزاد ئی فکر کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ تنقیدی شعور گناہِ کبیرہ نہیں کہلواتا تو کہنا یہ ہے : کبھی تو سوچیے کہ آپ وہ کیوں سوچتے ہیں، جو آپ سوچتے ہیں؟

اس کا کوئی تو سرا ہوگا ناں جناب، یا نہیں؟

دُم: تحریک انصاف کی صوبائی حکومت آئی تو معجزاتی توقعات تھیں۔ پانچ سال بعد انقلابی یہ کہتے ملے کہ یہ پہلا موقع تھا۔ یہی حال مرکزی حکومت کا بھی ہو گا۔ مجھ میں چونکہ ہمت نہیں کہ محترم جناب عمران نیازی صاحب کی تقریر کو سہہ سکوں تو جو تھوڑا بہت مجھ تک پہنچا، اس پر ”تنقیدی شعور“ کا سوال یہ ہے کہ انہوں نے جو وعدے کیے ہیں، انہیں وعدوں پر ان کی ماضی قریب کی صوبائی حکومت کی کارکردگی چیک کرنا کوئی جرم نہیں۔ کیجیے گا تو کافی تسلی رہے گی۔ باقی، ”ساڈی کھیڈ“ والوں کے پاگ لگے رہن، ڈیرے وسدے رہن، بیڑے تردے رہن، دشمن سڑدے رہن، مولا شہنشاہ آباد رکھے، برررررر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).