دمشق کا باب صغیر – دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز


دمشقِ قدیم کی فصیل کے سات دروازے ہیں جو رومی دور بلکہ اس سے بھی پہلے سے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں ایک دروازہ “باب صغیر” یا چھوٹا دروازہ کہلاتا ہے۔ کسی دور میں یہ شہر کی یہودی آبادی کا مسکن تھا۔ مرورِ زمانہ سے یہ محلّہ خرابے کی صورت اختیار کر گیا کہ اکثر یہودی نقل مکانی کر گئے۔ سنا جاتا ہے کہ دو تین گھرانوں کے بزرگ اب تک دمشق میں رہتے ہیں۔ ان کے دیگر اہلِ خانہ دور دراز زمینوں پر جا بسے ہیں یا اسرائیل چلے گئے ہیں مگر یہ “حب وطن ز ملک سلیمان خوشتر است” پر کاربند اپنی مٹی کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں میں اس محلّے کو سوریا کے دیہی علاقوں سے روزگار کی تلاش میں آنے والوں نے اپنا مسکن بنایا جن میں اتفاق سے اکثریت اثناء عشری مسلمانوں کی رہی۔ سو بستے بستے یہ بستی پھر سے بس گئی۔

اس محلّے کا مگر سب سے امتیازی پہلو اس کا دمشق کے قدیمی قبرستان کے متصل ہونا ہے۔ اس خادم کے فرائض منصبی کی نوعیت ایسی ہے کہ کام سے فراغت نصیب ہوتے ہوتے شام پڑ جاتی ہے چنانچہ کئی بار کوشش کے باوجود جب اس جانب آیا تو قبرستان کے دروازوں کو مقفل پایا۔ بتایا گیا کہ زیارت کا مقررہ وقت شام ساڑھے پانچ بجے ختم ہو جاتا ہے۔ اس بار البتہ مسلّم ارادہ تھا کہ اس گورستان کی زیارت ضرور کی جاے۔ سو اپنے دو مقامی ہم کاروں یاسر دریعی اور رامی ملص اورافغان ہمدم دیرینہ زبیر عزت کو ساتھ لیا اور دفتر سے ذرا جلد چھٹی کر کے باب صغیر کی جانب روانہ ہوے۔ رامی میاں کے ساتھ کا ایک فائدہ یہ تھا کہ قبرستان کے متعدد احاطوں میں سے ایک کی چابی ان کی تحویل میں رہتی ہے چونکہ ان کے ایک چھوٹے بھائی جو سن دو ہزار تیرہ میں شام کی خانہ جنگی میں کام آے، یہیں آسودہ خاک ہیں۔ یاسر کے مرحوم والد بھی اسی قبرستان کے ایک اور احاطے میں دفن ہیں۔

دمشق کا قیام ایک نادر تجربہ ہے۔ جن مقامات اور ہستیوں کا ذکر وعظ کی محفلوں یا کتابوں کے صفحات پر ایک مجمل انداز میں سنا یا پڑھا ہو، وہ ایک ہاتھ کی دوری پر ہوں تو ایک ناقابل بیان احساس پیدا ہوتا ہے۔ شام بالعموم اور دمشق بالخصوص اس حوالے سے بہت پر مایہ ہے۔ مسجد اموی، دربار یزید، کارزار یرموک ، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی خانقاہ، حضرت خالد بن ولید کی قبر، سلطان صلاح الدین ایوبی کا مرقد، منارۃ المسیح، سیف الدین قطز کا حمام وغیرہ اپنی اپنی جگہ اہم ہیں اور ان میں سے کچھ کا ذکر سابقہ مکاتیب میں گزر چکا ہے۔ لیکن باب صغیر اصحاب رسول [ص]، تابعین و تبع تابعین کرام، صوفیاء اور سب سے بڑھ کر اہل بیت کبار کے اجسام خاکی کو جلو میں لیے ہونے کے سبب الگ ہی شان رکھتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے یہ شعر دہلی کے لیے کہا تھا مگر اس خادم کی راے میں باب صغیر پر بھی اس کا یکساں انطباق ہوتا ہے۔۔ “چپے چپے پہ ہے یاں گوہرِ یکتا تہہ خاک۔۔ دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز”۔۔

قبرستان میں متعین محکمہ اوقاف کے اہل کاروں نے ایک مقامی راہ نما ہمارے ساتھ کردیا اور ابتدا حضرت بلال بن رباح الحبشی [رض] کے مزار سے ہوئی۔ گنبد کے وسط میں لکڑی کے تعویذ کے تلے اسلام کے اولین موذن کی قبر ہے اور ایک جانب حضرت عبداللہ ابن جعفر طیار [رض] کی۔ پھر حضرت فاطمۃ الزہرا [ع] کی کنیز حضرت فضہ کے مرقد مبارک کی زیارت ہوئی۔ اکثر مزارات عثمانی دور کا پتا دیتے ہیں کہ قدیمی وسط ایشیائی طرز تعمیر کے تحت اکثر قبور تہہ خانے میں ہیں اور بر سر زمین منزل پر تعویذ بنے ہوے ہیں۔ حضرت فضہ کے مزار کے باہر کسی خوش نویس کا لکھا ہوا اردو بورڈ آویزاں ہے جسے دیکھ کر وطن سے فاصلے کا احساس کچھ دور ہوتا ہے مگر مزار کے اندر قبر کے آس پاس دیواروں پر پاکستانی زائرین کی بھدی لکھائی میں لکھے گئے ناموں اور جھنگ، چکوال اور پنڈی میں چھپے ہوے جابجا چسپاں کیے گئے چمکیلے مذہبی سٹیکروں نے طبیعت کو مکدر بھی کیا۔ پھر علی الترتیب سیدہ اسما بنت عمیس، سیدہ حمیدہ بنت مسلم بن عقیل ، سیدہ میمونہ بنت حسن [ع] اور سیدہ ام کلثوم بنت علی و سیدہ سکینہ بنت حسین [ع] کے مزارات پر جانا ہوا۔ کربلا کے سولہ شہداء کے سر ہاے مبارک ایک ہی مزار میں دفن ہیں جن کی، حکومت ایران کی عطیہ کردہ، مجلا فہرست بھی ایک دیوار پر آویزان ہے۔ فہرست میں عمر بن علی اور عثمان بن علی کے نام نمایاں ہیں جس میں جملہ مومنین، خصوصا ہندوپاک کے مومنین کے لیے سوچ کا بہت کچھ سامان ہے۔

ایک دلچسپ مشاہدہ یہ ہوا کہ مزار کے خدّام میں ایک خاندان ہمارے خطے کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں محمد تقی نامی نوجوان نے بھی کچھ زیارات کروائیں۔ اس نے بتایا کہ وہ سن تہتر میں دمشق میں ہی پیدا ہوا اور یہیں پلا بڑھا ہے، لیکن اس کے خاندان نے پاکستانی پاسپورٹ کو ترک نہیں کیا۔ یہ دیکھ کر خوشی اور حیرت ہوئی کہ عمر بھر یہیں رہنے کے باوجود، اور مقامی لہجے کی عربی پر مکمل عبور کے باوصف، اس کی فارسی اہلِ زبان کے مانند رواں دواں تھی۔

شام بھیگ چلی تھی سو ہم یاسر کے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر ملحقہ سڑک شارع آل البیت پر نکل آے۔ یہاں نویں صدی عیسوی کے معروف صوفی بزرگ حضرت ذوالنون مصری کی زیارت ایک مقفل دروازے کے اندر دکھائی دی، سو باہر سے ہی ہاتھ اٹھا کر آگے بڑھ گئے۔ احباب میں اردو، فارسی یا عربی ادب سے تعلق رکھنے والے اب جتنے رہ گئے ہیں، ان میں سے اکثر بہلولِ دیوانہ / دانا کے دانش بھرے فکاہیے ضرور سنے یا پڑھے ہوں گے۔ یہ تو پتا تھا کہ وہ اچھے اچھوں کو خاطر میں نہ لاتا تھا، سر تلے اینٹ رکھ کر استراحت کرتا تھا اور مکروہات دنیوی سے بے نیاز تھا۔ یہ انکشاف یہاں آ کر ہوا کہ وہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کا [غالبا] سوتیلا بھائی تھا۔ ہمارے رفیق کار رامی ملص کا جواں سال بھائی احمد، بہلول دانا کے احاطے میں ہی خاک اوڑھے سو رہا ہے اور اسی حیلے سے اس احاطے کی چابی رامی کے پاس تھی۔ کچھ دیر ٹھہرے، مرحومین کو یاد کیا اور حافظ شیرازی کا یہ شعر دل میں دہراتے قیام گاہ کو لوٹ آے۔

ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد ز عشق

ثبت است در جریدہ عالم دوام ما­­


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).