عمران خان نیا پاکستان اور اداروں کی بالادستی


سب سے پہلے عمران خان اور عمران خان کے تمام ٹائیگرز کو دلی مبارکباد کہ ایک طویل اور صبر آزما سیاسی جنگ کو بلند حوصلوں اور ولولہ انگیز جذبوں سے جیتنے میں کامیاب ہوئے گو کہ خان صاحب یہ میدان نئے اصولوں سے تو نہ جیت پائے بلکہ انہی الیکٹبلز کے وضع کردہ پرانے اصولوں اور سہاروں سے جیتنے میں کامیاب ہوئے مگر اب اس بحث کا فائدہ نہیں کیونکہ اٹل حقیقت یہی ہے کہ خان صاحب جیت چکے ہیں اس لئے اب ہم اس فضول بحث میں الجھ کر خان صاحب اور ان کے حامیوں کی خوشیوں کو پھیکا نہیں کرنا چاہتے۔

اب خان صاحب نہ تو گیارہ کھلاڑیوں کے کپتان، ایک کروڑ سے زائد فالوورز کے راہبر اور دو کروڑ ووٹروں کے نمائندہ ہیں بلکہ بائیس کروڑ پاکستانیوں جن میں اقلیتیں بھی ہیں کے وزیراعظم ہیں اس لئے اب خان صاحب کو صرف تحریک انصاف کی بہتری کے نہیں بلکہ پاکستان کی بہتری کے فیصلے کرنا پڑیں گے۔

عمران خان صاحب چونکہ لوگوں کو یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ وہ ایک مسیحا ہیں جو کہ راتوں رات پاکستان کو جادو کی چھڑی سے ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دیں گے اس لئے خان صاحب کے ناتواں کندھوں پہ امیدوں کا بہت بھاری بوجھ ہے جس کو خان صاحب نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کم کرنا ہے۔

خان صاحب کے سامنے امر بالمعروف اور ونہی عن المنکر دونوں طرح کے اندرونی و بیرونی اتنے مسائل خوفناک اژدھے کی مانند منہ کھولے کھڑے ہیں کہ خان صاحب کو اپنی جیت کی خوشی منانے کا موقع بھی نہیں ملے گا ایک طرف تو خان صاحب کے لئے بیرونی معاملات جس میں میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اور امریکہ و برطانیہ کا دباؤ برداشت کرنا ہو گا تو دوسری طرف اندرونی مسائل جیسے تمام سیاسی مخالفین جو کہ خان صاحب کی نظر میں برائی کی اعلی ترین مقام پہ فائز ہیں ان کو ان کے برے مقام سے گرانا ہے اور بہترین معاشی پالیسیوں کے ذریعے پاکستان کی گرتی معیشت کو سنبھالا دینا ہے۔

خان صاحب کو اپنے سیاسی مخالفین سرداران مسلم لیگ ن جن کے تین سو ارب ملک سے باہر پڑے ہیں اور ماڈل ٹاؤن جیسے ریاستی دہشت گردی جیسے واقعات میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کرکے پاکستان کے پیسوں کو نہ صرف واپس لانا ہے بلکہ عوامی تحریک کے سربراہ اور سیاسی کزن طاہر القادری صاحب کی سیاسی حمایت کا بدلہ اتارتے ہوئے ان کے متاثرین کو انصاف بھی دلانا ہے اور دوسری طرف مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی کرپشن اور مولانا فضل الرحمان جیسے مفاد پرست ٹولے کے خلاف بھی لڑنا ہے خان صاحب کو ان سب کے خلاف لڑنا بھی ہو گا اور ان میں سابق وزیراعظم اور وزیراعلی کو معاف بھی کرنا ہو گا دیکھنا ہے خان صاحب کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں
ہاتھ الجھے ریشم میں پھنسا بیٹھا ہوں
اب بتا کونسے دھاگے کو جدا کس سے کروں

ایک بار خان صاحب نے کہا تھا کہ میرے پاس فرشتے نہیں ہیں جو میں لاسکوں مگر میں اداروں کو اتنا مضبوط کر دونگا کہ یہی لوگ فرشتوں کا سا کردار ادا کریں اگر خان صاحب اپنے اس موقف پہ قائم رہتے ہوئے صرف اپنے ماتحت ادارے پارلیمنٹ کو ہی مضبوط کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنے اختیارات از خود استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ خان صاحب کی اصل کامیابی ہو گی جس سے انشاء اللہ نیا پاکستان بھی بن جائے گا اور اداروں کی بالادستی بھی قائم ہو جائے گی۔

خان صاحب یہ قوم آپ کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پہ بٹھا کر اپنا حق بھی ادا کر چکی اور جیت بھی چکی ہے مگر آپ کی جیت تب ممکن ہوگی جب آپ اتنے مضبوط ہو جائیں گے جب اس نظام کو الیکٹبلز کی ضرورت اور مجبوری نہیں رہے گی اور میرے جیسے خود ساختہ دانشور بھی نئے پاکستان کا نعرہ لگانے پہ مجبور ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو اور آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔ امین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).