وزیر اعظم کا تخت، بھول بھلیوں کا جال اور عمران خان


View post

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا اتنخابات میں جیت کے جھنڈے گاڑ کر وزیر اعظم بننا اور ساتھ ساتھ صوبہ خیبرپختونخواہ میں اکثریت، پنجاب میں مقبولیت اور سندھ میں اپوزیسن کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر آنا سب کے لیے ایک بڑا سر پرائیز ہے۔ عمران خان کے حوالے سے سب کو پہلے ہی یقین تھا کہ وہ دوریش کی دعا سے وزیر اعظم بن جائیں گے۔ حالات و واقعات کو دیکھ کر سب کو پختہ یقین تھا کہ کچھ بھی ہو جائے پاکستان مسلم لیگ (ن) نا ہی پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی نہ ہی وفاق میں مگر اس کے باوجود بھی یہ لگ رہا تھا میاں نواز شریف کی آواز پر اٹھ کھڑے ہونے والے پنجاب کے لوگ پنجاب کو آسانی سے فتح ہونے نہیں دیں گے۔

ایک طرف ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف ان انتخابات کو صاف اور شفاف قرار دے کر الیکشن کمیشن کو مبارک باد پیش کر رہی ہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی جیت پر تو پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز بھی پریشان ہیں کہ ان کو کس نے ووٹ ڈالا ؟

پاکستان پیپلز پارٹی اپنے گڑھ لیاری سے بلاول کی ہار پر احتجاج کرتے نظر آ رہی ہے اور مولانا فضل الرحمان کی ہار پر تو ایسا لگا رہا ہے کہ جیسے مولانا سے کسی نے بہت برا بدلا لیا ہے۔ اب وہ آل پارٹیز کانفرنس کرے یا ملک گیر ہڑتال اب کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ عوام کا ماننا ہے کہ کون سے انتخابات میں یہاں پر دھاندلی اور خلائی مخلوق کا ذکر نہیں ہوا ہے اب جو بھی ہوا خاب صاحب کو اکثریت مل گئی ہے اب ان کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ قوم کی تقدیر بدلیں۔ اب خان صاحب پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کو سچ کر دکھائیں۔ ملکی حالات کے پیش نظر پہلے یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کو چلانا اتنا آسان نہیں جتنا خان صاحب سمجھ رہے ہیں کیونکہ اس تخت پر بڑے بڑے تجربہ کار سیاستدان بھی اکثر و بیشتر ناکام نظر آئے ہیں۔ ہمیشہ ہی اس ملک میں وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھنے سے پہلی بہت سے بلند بانگ دعوے تو کیے جاتے ہیں مگر ان کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جاتا کہ جو منھ سے نکالا وہ پورا ہو جائے۔ اس وقت عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک کی معاشی صورتحال ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ ملک گردشی قرضوں کے چکر میں گھومتا جا رہا ہے۔ ڈالر کی اڑان کو تو کچھ عرصے لیے روکا جا سکتا ہے مگر معاشی اصلاحات ناگزیر ہیں۔

پبلک و پرائیوٹ پارٹنرشپ کا خواب تو سبھی دیکھتے ہیں مگر پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان ریلوے اور دیگر اداروں کی نجکاری اتنی بھی آسان نہیں جتنے سمجھی جاتی ہے۔ خارجہ اور دفاعی پالیسی کے حوالے سے بہت سارے تلخ تجربات اور حالات و واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا حل، پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات، امریکا بہادر سمیت عالمی طاقتوں سے برابری کی بنیاد پر تعلقات اور آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنا ہمارا پالیسی بیان تو ہو سکتا ہے مگر جنرل پرویز مشرف جیسے کمانڈو بھی آن دی لائن آف فائر ہو جاتے ہیں۔ دہشتگردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ اور امن و امان کا قیام ہمارے روشن مستقبل کے لیے لازم و ملزوم ہے مگر اپنی مرضی سے تن تنہا آپ اس کا حل نہیں نکال سکتے ہیں۔ غربت و بیروزگاری کی جڑیں اس ملک میں اتنی مضبوط ہو گئی ہیں کہ مسلسل فلاح و بہود اور ترقی کے پروگرام بھی انہیں ختم کرنے میں ناکافی نظر آتے ہیں۔ اس لیے خان صاحب کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بہت ہی مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔ یہاں پر تو بحران پر بحران ہے توانائی کا بحران ہو یا روزگار کی تلاش لوگ جلد ہی مایوس ہو جاتے ہیں۔ اس لیے چین ہو یا ملیشاء ان کے تجربات سے سیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کیسے کرپشن کی روک تھام کی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے یہ ایسا بھی کوئی کیمیائی فارمولا نہیں جو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی بھی بہت سی مثالیں دنیا میں موجود ہیں کہ کس طرح پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا اور کس طرح پی آئی اے کے لوگوں نے امیریٹس سمیت دنیا کے بہتریں ایئر لائنز کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کے دوسرے کامیاب پانچ سالہ معاشی ترقی کے منصوبہ پر عمل در آمد کرتے ہوئے کس طرح کوریا نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ اور پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان ریلویز بھی کبھی کماؤ پوت تھے اور ابھی بھی پاکستانی قوم دنیا سمیت پاکستان مین ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ اس ملک میں ٹیلینٹ کی نہیں بلکہ مواقعوں کی کمی ہے۔

اس ملک میں ہمیشہ سے سازشی نظریات کام کرتے رہے ہیں۔ عوام کے مقبول ترین وزیر اعظم کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ طاقت کے حصول کے لیے کئی وزراء اعظم کو معزول کیا گیا ہے ابھی بھی کرپشن صرف سیاستدانوں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر سیاسی کارکن ملکی حالات کی وجہ سے پریشان نظر آتے ہیں۔ تمام تر قربانیوں کے باوجود ابھی بھی جمہوریت کو سمجھنے سے کئی سیاستدان قاصر ہیں اور اقتدار کے حصول کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کے استعمال سے گریز نہیں کرتے۔ خیر اس ملک میں تخت اور طاقت کی لڑائی تو چلتی رہے گی اور جہموریت کی بالادستی کے حوالے سے بھی آوازیں بلند ہوتی رہیں گی۔ مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس کو لائبریری میں تیدیل کرتے ہیں یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں؟ وہ ملک کی انقلابی خارجہ اور دفاعی پالیسی کی نئی داغ بیل ڈالتے ہیں یا پھر روائتی پالیسی پر ہی گذارہ کریں گے؟ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امن و امان کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات ہوں گے یا پھر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا؟ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملکی اداروں کی نجکاری کر کے ایک ہاتھ بیچا اور دوسرے ہاتھ خریدا جائے گے یا پھر ان کو کماؤ پوت بنایا جائے گا؟ سب بڑا امتحان خان صاحب کے لیے سیاسی استحکام، جمہوریت کی بالادستی اور صوبائی خودمختاری ہے۔ اب تو یہ وقت ہی بتائے گا کہ خان صاحب میاں شھباز شریف اور آصف علی زرداری سمیت سیاسی مخالفین سے کس طرح نمٹیں گے اور ان کے سیاسی مخالفین ایک مضبوط اور تجربہ کار اپوزیشن کا کردار ادا کرکے ان کو کتنا ٹف ٹائم دیں گے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس ملک کے تخت میں انگنت مشکلات اور بھول بھلیوں کا جال بچھا ہوا ہے بغیر کسی لنگر کے آپ یہاں لنگر انداز نہیں ہو سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).