نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی کی مقتل گاہ


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

دس مئی 2016 کو نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی میں کوئی زمین نہیں پھٹی۔ کوئی آسمان نہیں گرا۔ گری تو بس نئے تعمیر ہو رہے اکیڈمک بلاک کی ایک زیر تعمیر دیوار گری، مرا تو بس ملتان کا ایک اٹھائیس سالہ غریب مزدور مرا جس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔

نیشنل کالج سے تعلق رکھنے والے بعض  ذرائع کے مطابق یہ حادثہ رات دس بجے کے قریب پیش آیا جس وقت تیز ہوا چل رہی تھی۔ عمارت پر تعمیراتی کام جاری تھا اور لفٹ آپریٹر محمد فاروق سیمنٹ کے بلاک لے کر اوپر جا رہا تھا کہ دوسری منزل کی ایک کنکریٹ کے بلاک سے بنی ہوئی دیوار ہوا سے گر پڑی اور ایک بلاک محمد فاروق کے سر پر لگا جس سے موقع ہی پر اس کی موت واقع ہو گئی۔

\"nca-dead\"

اطلاعات کے مطابق تعمیراتی کام کے ٹھیکیدار نے عثمان نے مزدور کے لواحقین کو مبینہ طور پر ایک لاکھ روپیہ ادا کر کے راتوں رات لاش کو تدفین کے لیے آبائی علاقے ملتان بھیج دیا۔ علاقے کی پولیس اس معاملے سے دور رہی مگر کالج کی انتظامیہ کے اصرار پر پولیس کو ایکشن لینا پڑا لیکن سٹی پولیس سٹیشن کے سب انسپکٹر عابد شاہ کا کہنا ہے کہ فاروق کے بھائی اور بہنوئی کے مطابق یہ ایک حادثہ تھا اور انہوں نے پولیس کو ایک تحریری بیان دیا ہے کہ وہ کوئی قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتے ہیں اور پوسٹ مارٹم اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ لواحقین لاش کو تدفین کے لیے فوری طور پر ملتان لے گئے تھے۔

\"nca-0\"

ٹھیکیدار عثمان کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ اس وجہ سے ہوا کہ طوفان آیا ہوا تھا اور اس وقت مزدور آرام کر رہے تھے اور کسی قسم کا تعمیراتی کام نہیں کیا جا رہا تھا۔ حفاظتی اقدامات کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ان پر عمل کیا جاتا ہے اور تمام مزدور کام کرتے ہوئے ہیلمٹ پہنتے ہیں۔

جبکہ ایکسپریس ٹریبیون کی خبر کے مطابق این سی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم عمر کا کہنا ہے کہ یہ حفاظتی تدابیر پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمارت کی تعمیر سے متعلق رپورٹس اچھی نہیں ہیں اور معیاری کام نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے طلبا کو اس عمارت سے دور رہنے کی تنبیہ کی ہے۔

اس واقعے کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ کوئی غیر متوقع حادثہ تھا جسے روکنا کسی انسان کے بس سے باہر تھا، یا یہ سانحہ ایک ایسی انسانی غفلت کی وجہ سے ہوا جو کہ ایک بہت بڑی تباہی اور بڑے جانی نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے؟

آئیے چلتے ہیں ایک خط کی طرف، جو کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی انسپکشن کمیٹی کے دورے کے بعد کمیشن کے ڈائریکٹر سید نوید حسین شاہ نے نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل ڈاکٹر مرتضی جعفری کو لکھا تھا۔ خط میں این سی اے کے اس نئے اکیڈمک بلاک کی تعمیر کے بارے میں نہایت سنجیدہ اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ خط تیس دسمبر 2015 کو لکھا گیا تھا۔ اس خط کے علاوہ ہمیں اس زیر تعمیر عمارت کی کچھ تصاویر بھی موصول ہوئی ہیں جن میں اس خط میں کیے گئے اعتراضات واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔

\"nca-1\"

خط میں کہا گیا تھا کہ تعمیراتی کام کسی کنسلٹنسی کمپنی کے تجربہ کار انجینئیر کی نگرانی کے بغیر کیا جا رہا ہے جبکہ تعمیراتی معاہدے کے تحت یہ کام کسی ماہر کی زیر نگرانی کیا جانا تھا۔

انسپکشن میں کئی اہم تعمیراتی نقائص کو نوٹ کیا گیا۔ دیکھا گیا کہ کہ زیر تعمیر عمارت کی چھت محض نو سے دس انچ موٹی ہے اور اسے کسی سلیب کی سپورٹ کے بغیر تعمیر کیا گیا ہے۔ تصاویر میں واضح ہے کہ یہ چھت خود اپنا وزن بھی اٹھانے سے قاصر ہے اور اب درمیان سے بیٹھی ہوئی ہے۔

\"nca-8\"

ستونوں کو عمارت کی بنیاد کے عین اوپر تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ستونوں اور بیموں کے درمیان سے کنکریٹ غائب ہے اور وہاں خلا نظر آ رہا ہے۔ یہ کھوکھلے ستون کمزور ہیں۔ ایک ستون کی بنیاد میں تو خلا کو پر کرنے کے لیے سیمنٹ کے خالی تھیلے بھرے نظر آتے ہیں۔ ان نقائص کو چھپانے کے لیے اوپر الگ سے کیا گیا پلستر صاف نظر آتا ہے۔

کمیشن نے نوٹ کیا کہ وہاں موجود تعمیراتی عملے کے پاس کسی قسم کی ٹیسٹ رپورٹس اور دوسرا تعمیراتی ریکارڈ موجود نہیں ہے جو کہ تعمیراتی کام کے دوران رکھنا لازم ہے۔

ان بڑے تعمیراتی نقائص کو دیکھتے ہوئے کمیشن نے تجویز کیا کہ کنسلٹنٹ اور پراجیکٹ ڈائریکٹر سے جواب طلبی کی جانی چاہیے اور ذمہ داری کا تعین کیا جانا چاہیے۔

\"nca-7\"

انسپکشن کمیشن نے کہا کہ پہلے سے کی گئی تعمیر اور عمارت کے ڈیزائن کا کسی آزاد ادارے سے تجزیہ کرایا جانا چاہیے، اور تمام نقائص کو کنسلٹنٹ اور ٹھیکیدار کے خرچے پر دور کیا جانا چاہے اور جب تک یہ نہیں ہو جاتا، مزید تعمیراتی کام نہ کیا جائے۔ مزید یہ کہ ادارے سے متعلق اور آزاد تکنیکی ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جانی چاہیے جو کہ تعمیراتی کام کی نگرانی کرے۔

کمیشن نے یہ کہا کہ پراجیکٹ کا ذمہ دار ادارہ فوری طور پر ایکشن لے اور دو ہفتے کے اندر اندر رپورٹ پیش کرے کہ یہ کام ہو گئے ہیں۔

\"nca-3\"

اس خط اور عمارت کی تصاویر سے یہ نظر آتا ہے کہ این سی اے کے طلبا اور سٹاف کے لیے ریت کا محل تعمیر کیا جا رہا ہے جو کہ ہوا کے کسی تیز جھونکے سے بھی گر سکتا ہے۔ اور تماشا یہ ہے کہ ڈیزائن اور تعمیر کے لحاظ سے ناقص ترین تعمیر اس ادارے کے اندر ہی کی جا رہی ہے جو کہ ماہرین تعمیرات پیدا کرنے والا پاکستان کا نمبر ون ادارہ ہے۔ اسے تعمیر کے نقائص جاننے کے لیے کسی باہر کے ماہر کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد کا علاقہ سنہ 2005 سے ہی پانچ یا زیادہ شدت کے کئی زلزلے سہہ چکا ہے۔ پاکستان میں 2005 پانچ کے بڑے زلزلے کو ملا کر کم از کم اس وقت سے اب تک سات سے زیادہ شدت کے چار زلزلے آ چکے ہیں، اور چھے سے زیادہ شدت کے تین زلزلے آ چکے ہیں۔ ان زلزلوں کے بڑی شدت والے آفٹر شاکس اس کے علاوہ ہیں۔

\"nca-4\"

جو عمارت ایک معمولی سی آندھی سہنے سے قاصر ہے، اور اس کی تعمیر میں بڑے بنیادی نقائص کی نشاندہی کی جا چکی ہے، اس میں تعلیم شروع ہو گئی تو ہم سات سو سے زیادہ بچوں، استادوں اور دوسرے عملے کی زندگی اور خیر و عافیت کے لیے بس دعا ہی کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ این سی اے کا ادارہ کیبنٹ ڈویژن کے تحت کام کرتا ہے، اور اس کے سربراہ وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف ہیں، جنہوں نے غالباً نیشنل کالج آف آرٹس کو ایک غیر ملکی ادارہ جان کر مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز صاحب کے سپرد کر دیا ہے۔  اس وقت تو اس ناقص تعمیر کے معاملے پر کوئی توجہ نہیں دے گا لیکن ہمیں یقین ہے کہ خدانخواستہ کوئی بڑا نقصان ہو گیا تو جناب وزیراعظم ہرگز بھی پیچھے نہیں رہیں گے اور ضرور نوٹس لیں گے۔ ان کی طرف سے مرنے والوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے کا چیک دیا جائے گا \"nca-6\"اور زخمی ہونے والوں کو دو دو لاکھ روپے ملیں گے۔

آرمی پبلک سکول کے 134 بجے تو دہشتگردوں نے مارے تھے، نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی کے 450 بچے کہیں تعمیراتی شعبے کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔

محمد فاروق کی قسمت خراب تھی کہ اسے بعد از مرگ وزیراعظم کی بجائے مبینہ طور پر ٹھیکیدار سے ہی رقم ملی جو کہ پانچ لاکھ کی بجائے محض ایک لاکھ تھی۔ اس کے دو ننھے بچے اور جوان بیوہ اس خطیررقم میں خوب موج کریں گے، باپ اور شوہر کا کیا ہے، اس کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زیادہ تو نہیں ہوتی ہے۔


\"hec-letter-clean\"

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar