نیا پاکستان کے اصل نقشہ نویسوں، مکالمہ نگاروں اور معماروں کو مبارکباد


بالآخر شبانہ روز اور انتھک محنت کے نتیجے میں ایسٹیبلیشمنٹ نے نیا پاکستان تشکیل دے ڈالا۔ جناب عمران خان جلد ہی وزارت عظمی کا حلف اٹھائیں گے اور شائقین ہمیشہ کی مانند تالیاں بجاتے اور بھنگڑے ڈالتے اپنی اپنی ذاتی اناوں کی تسکین کے بعد خواب خرگوش میں محو ہو جائیں گے۔ محترم ڈی جی آئ ایس ہی آر  نے جس قدر عجلت میں قرآنی آیت “‏وتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ” کو ٹویٹ کیا اس سے اندازہ ہوا کہ نیا پاکستان کو سیمنٹ اور بجری مہیا کرنے والے معمار انتہائی بیتابی سے انتخابی نتائج کا انتظار کر رہے تھے۔ جس قدر شدید پری پول رگنگ اور سب سے تگڑے مخالف پہلوان کو اکھاڑے سے باہر کر کے یہ انتخابی دنگل اپنے نام کروایا گیا ہے اس کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں مقتدر قوتوں میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پائ جاتی ہے۔ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو بھلے ہی بلڈوز کر دیا گیا ہو لیکن یہ نعرہ شاید ہماری دفاعی اشرافیہ کی سماعتوں میں زہر بن کر گھلتا ہے۔

اگر اس قدر پری پول رگنگ کے باوجود اور شہباز شریف جیسے مفاہمتی اور موقع پرست راہنما کی موجودگی کے باوجود مسلم لیگ نواز نے قومی اسمبلی کی 63 نشستیں اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی 127 نشستیں جیتی ہیں تو شاید یہ نواز شریف اور مریم نواز کی مزاحمتی سیاست کی بدولت ہی ممکن ہو پایا ہے۔ وگرنہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے مسلم لیگ نواز کی لٹیا ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ انتخابات میں پری پول رگنگ کے حقائق اپنی جگہ پر لیکن مسلم لیگ نواز اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اب یہ تسلیم کر لینا چائیے کہ جب آپ ایسٹیبلیشمنٹ کے لاڈلوں کے خلاف میدان میں اترتے ییں تو آپ اقتدار کو قطعا اپنی سیاست کا محور نہیں بناتے۔ اس لئیے دھاندلی کا شور مچانے سے کہیں بہتر ہے کہ یہ جماعتیں اپوزیشن میں بیٹھ کر سیاست کا وہی ڈھنگ اختیار کریں جو پچھلے پانچ برس میں عمران خان اور ہماری ایسٹیبلیشمنٹ نے اپنایا تھا۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز کو اب سول سرچنگ کی انتہائ ضرورت ہے نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے پر عمل پیرا ہونے کیلئے اس جماعت کو پرویز رشید ،مشاہدالہ خان اور خواجہ آصف جیسے رہنماوں کی اشد ضرورت ہے، نا کہ شہباز شریف اور مشاہد حسین سید جیسے مفاہمت اور موقع پرست رہنماوں کی۔ اسی طرح اگر مسلم لیگ نواز کو موجودہ دور میں اپنا بیانیہ مضبوط کرنا ہے تو اسے اپنی مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیموں کو فوری طور پر بدلنا ہو گا وگرنہ سوشل اور مین اسٹریم میڈیا کے یہ سفید ہاتھی بیانئیے کے ساتھ ساتھ اس جماعت کے تشخص کو بھی ختم کر دیں گے۔ کسی بھی تحریک یا جماعت کو زندہ رکھنے کیلئے تازہ خون بے حد ضروری ہوتا ہے اور مسلم لیگ نواز کو اب اپنی صفوں میں نیا خون شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے جو بلا جھجک اور دو ٹوک انداز میں اپنی بات اور پیغام عوام تک پہنچا سکتا ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سعد رفیق یا دیگر راہنما انتخابات ہارنے کے بعد بھی واضح الفاظ میں ان قوتوں کا نام نہ لیں جو اس سارے کھیل کی ڈوریاں ہیچھے سے ہلاتی ہیں اور عوام سے یہ توقع کریں کہ وہ ان کی خاطر ان قوتوں کے نام آشکار کریں یا میدان میں مزاحمت کریں۔ خیر مسلم لیگ نواز کا یہ داخلی معاملہ ہے اور یہ جماعت اس معاملے سے کیسے نبٹتی ہے وہی جانے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کیلئے اب اصل امتحان شروع ہوا ہے اور یہ جماعت کس طرح اپنے “مہربانوں” کو ناراض نہ کرتے ہوئے اندرونی اور خارجہ محاذ پر کیا کاکرکردگی دھاتی ہے، یہ سامنے آنا ابھی باقی ہے۔ امید غالب ہے کہ عمران خان کے ساتھ جلد یا بدیر وہی سلوک نہیں ہو گا جو سابقہ تمام وزرائے اعظموں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ چونکہ “نیا پاکستان” کی بنیادوں میں خاکی رنگ شامل ہے اس لئے دل خوش فہم کو یہ بھی امیدیں ہیں کہ اس نئے پاکستان میں کم سے کم بھارت سے امن کی خواہش پر وزیر اعظم مودی کا یار نہیں کہلایا جائے گا اور نہ ہی نئے پاکستان کی حکمران جماعت توہین مذہب کے گناہ کی مرتکب ٹھہرائی جائے گی۔ میڈیا اور سرکاری منشی بھی چڑھتے سورج کو سلام کرنے کی عادت سے مجبور اور ڈنڈے کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی علت کے مرض میں مبتلا نئے پاکستان کے قصیدے پڑھتے نظر آئیں گے۔ یوں راوی ہر سو چین ہی چین لکھے گا اور نیا پاکستان خاکی گملوں کی کیاریوں میں اگ کر نشو نما پاتا رہے گا۔ مزاروں کی کمائی کھانے والے اور کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑنے والے نئے پاکستان کے برانڈ ایمبیسیڈر مقرر کئیے جائیں گے ۔ ہو سکتا ہے شجاعت کے ریٹائرڈ  شہسواروں کو نیا پاکستان کا خواب دیکھنے کے انعام کے طور پر سرکاری اعزازات اور انعام و اکرام سے بھی نوازا جائے۔

ہاں جس دن محترم عمران خان کو یہ احساس ہوا کہ وزیراعظم محض فیتے کاٹنے کیلئے نہیں ہوتا اور انہوں نے ذرا سی دیر کیلئے بھی خارجہ امور یا دفاعی امور سے متعلق پالیسیاں مرتب کرنے کا سوچا تو اسی وقت نیا پاکستان کی بنیادیں ہلا دی جائیں گی اور جھٹ سے نیا پاکستان کو وطن عزیز کیلئے سیکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے واپس پرانے پاکستان کو پردہ سکرین پر پیش کر دیا جائے گا۔ امید ہے کہ سابق وزرائے اعظموں کا حشر دیکھتے ہوئے عمران خان اسی تنخواہ پر کام کرنے کو ترجیح دیں گے جس پر شوکت عزیز اور چوہدری برادران کام کرتے رہے۔ نیا پاکستان کے اصل معماروں کو فتح کا جشن مبارک ہو کہ ایک مقبول عوامی راہنما کو کال کوٹھڑی میں بھیج کر اور اسے غدار اور چور قرار دیکر ایک دوسرے عوامی رہنما کے کاندھے استعمال کر کے “اسٹیٹس کو” کو بچا لیا گیا۔ تاریخ اور معرروضی حقائق سے نابلد ایک اچھی خاصی تعداد ایسی نسل کی بھی تیار کر لی گئی جو من و عن نفرتوں کی امین بن کر ایک مخصوص پراپیگینڈے پر سو فیصد ایمان رکھتی ہے اور مقدس گائے سے سوالات پوچھنے کو گناہ عظیم تصور کرتی ہے۔ یہ مبارکباد پیش کرتے ہوئے نیا پاکستان کے معماروں کو یہ یاد دہانی بھی کروانی ضروری ہے کہ عوام کی ہی ایک اچھی خاصی تعداد اب فاطمہ جناح سے شروع ہو کر اس نئے پاکستان تک کے کھیلے جانے والے کھیل سے نہ صرف بیزار ہے بلکہ شدید نفرت بھی کرتی ہے۔ خیر جشن کے موقع پر اس طرح کی باتیں اچھی نہیں لگتیں اس لئیے فی الحال نیا پاکستان کے اصل نقشہ نویسوں، مکالمہ نگاروں اور معماروں کو جیت کی مبارکباد کہ بالآخر پرانی ریت کو قائم رکھتے ہوئے ایک بار پھر فریکچرڈ مینڈیٹ کے سہارے مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).