سیاسی جانباز، ملکی حالات اور الیکشن 2018


24 جولائی کا دن تھا۔ یوں تو لاہور کا موسم خوشگوار تھا لیکن سیاسی ماحول اپنے بوائلنگ پوائنٹ پر تھا۔ کیونکہ اگلے روز یعنی 25 جولائی کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے الیکشن ہونے والے تھے۔

سیاست میں گرما گرمی تو نواز شریف کے نا اہل ہونے کے بعد سے ہی بڑھ گئی ہوئی تھی اور ہر سیاسی پارٹی کے جیالے یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ”سپاہی“ اپنے اپنے ہتھیار تیز کر چکے تھے۔ ووٹ اور سپورٹ تو پہلے بھی کیے جاتے تھے مگر اس بار فضا میں شدت پسندی کا عنصر کچھ زیادہ مقدار میں تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو مارنے کی بات کرتے تھے اور کئی تو ایک دوسرے کی دُھلائی بھی کر ڈالتے تھے۔ یہ میری زندگی کا دوسرا الیکشن تھا اور اتنی شدت پسندی دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور تھی کہ کیا الیکشن تک ہی زندگی رہے گی؟ کیا اس کے بعد کوئی زندگی نہیں؟ اور یہ کہ یہ لوگ اس کے بعد کس منہ سے ایک دوسرے کا سامنا کریں گے۔ کیونکہ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہمارے معاشرے میں معافی کا رواج بھی کچھ زیادہ نہیں رہا۔

سارا ملک میدان جنگ بنا ہوا تھا اور عظیم سیاسی مسیحا بھی ہر اچھی اور بری بات کے لیے اپنی سپاہیوں کے حوصلے یوں بڑھاتے نظر آتے تھے کہ جیسے یہ سپاہی بس ابھی پانی پت کے میدان میں قدم رکھنے والے ہوں۔ تمیز، تہزیب کا دور تقریباً ختم ہو چکا تھا اور بدتمیزی کا سیزن چل رہا تھا۔ اور اس سیزن میں سب سے اہم کردار سوشل میڈیا کا تھا۔ لوگ صبح سے شام تک متعدد سوشل میڈیا سائٹس کھول کر مختلف ویڈیوز اور لنکس شئیر کر کے خوش ہوتے رہتے۔

آپ کے دماغ میں یہ سوال تو آیا ہی ہو گا کہ وہ خوش کیوں ہوتے تھے؟ خوش اس لیے کیونکہ ان ویڈیوز میں مخالف سیاسی پارٹی کے جیالوں اور ووٹرز کو گالیاں دی جاتی۔ انہیں گدھے، بے غیرت، غلام، سستے نشئی اور بھی بہت جاہلانہ القاب سے نوازا جاتا تھا۔ کچھ ایسے الفاظ سے بھی جو یہاں استعمال کرنا یا کسی بھی اچھے گھرانے میں استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ یہ ہی نہیں جناب! کچھ جیالے تو اس حد تک اپنے سیاسی مسیحاوّں کے دیوانے تھے کہ وہ ایک دوسرے کی ماوّں بہنوں کو گالیاں دینے اور ان پر بہتان لگانے میں بھی کوئی آر محسوس نہ کرتے تھے۔

سیاسی گرمی کا یہ حال تھا کہ ایک جگہ کام کرنے اور کھانے والے لوگ بھی ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے تھے۔ ان کا بس نہ چلتا تھا کہ نوکرہی ہی چھوڑ دیتے۔ کیونکہ وہ مختلف پارٹیوں کے ووٹر اور جیالے تھے اور ان کے خیال میں ان سے الگ نظریہ رکھنے والے لوگ جاہل، گوار، بے شرم، بے حیاء اور ہاں غدار بھی تھے۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ ایک جمہوری ملک ہے یا جنگ کا میدان۔
عجیب کیفیت ان لوگوں کے لیے تھی جو کسی پارٹی کے جیالے نہیں تھے یا کسی کو ووٹ نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ کیوں؟ اصل میں تو وہی سب سے زیادہ پس رہے تھے کیونکہ جیالے اور سپاہی ان لوگوں کے بارے میں یہ محسوس کرتے تھے کہ یہ ان کی مخالف پارٹی کے ووٹر ہیں مگر ان کو بتانے سے کتراتے ہیں کیونکہ جیالوں کی نظر میں دوسری پارٹی کے ووٹر گدھے تھے جو یہ جانتے تھے کہ وہ لوگ غلط آدمی کو ووٹ دے رہے ہیں مگر پھر بھی ووٹ ان ہی کو دینا چاہتے تھے کیونکہ وہ لوگ ”بے غیرت“ تھے۔

سچ پوچھئیے تو یہ لوگ) جو ایسا سوچتے تھے( وہ خود کو آئنسٹائین سے بھی زیادہ عقلمند سمجھتے تھے۔ کچھ پڑھائی لکھائی کی ہو یا نہ کی ہو، تاریخ پتا ہو یا نہ ہو، یہ لوگ باقی مخلوق کے بارے میں یہ ہی سوچتے تھے کہ ”بندر کیا جانے ادرک کا سواد“۔ سب کا سیاسی لیڈر ان کے لیے مسیحا تھا جو منتخب ہوتے ہی ان کی زندگی کی کایا پلٹنے کا اختیار رکھتا تھا کیونکہ مسیحاوں کے پاس تو یہ طاقت ہوتی ہے نہ؟ کچھ جیالوں اور ووٹروں نے تو دوسروں کو بلیک میل بھی کیا کہ ”بھائی ووٹ صرف فلاں کو ڈالنا ورنہ مجھ سے رشتہ ختم سمجھو“۔ کچھ نے سوشل میڈیا کے میدان میں یہ پوسٹیں شئیر کیں کہ اگر کوئی مخالف پارٹی کو ووٹ کرنے جا رہا ہے تو اس کے ہاتھ پر پہلے سے ہی مارکر کا نشان لگا دو تاکہ وہ ووٹ کاسٹ نہ کر سکے اور کچھ نے تو اپنے لیڈروں کو خدا بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔

انتخابی مہم کے ایک ماہ کے دوران دو صوبوں میں 13 پرتشدد کارروائیوں سمیت خودکش حملے، بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے جن میں کچھ امیدواروں سمیت تقریباً 200 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ مگر پھر بھی لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے تھے؟

یہ منظر انتہائی خوفناک تھا کیونکہ چاہے جو بھی پارٹی اختیار میں آئے، سیاسی بنیادوں پر یہ دشمنی اور نفرت انگیزی اب کبھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ اپنے چار سال کے الیکٹرونک میڈیا کے تجربے میں میں نے اتنی شدت پسندی نہیں دیکھی تھی۔ کوئی دانشور بھی اس زمانے کی قوم کو یہ نہیں سمجھا سکتا تھا کہ ہر انسان اپنا نظریہ اور سوچ رکھتا ہے اور اس کے تحت وہ اپنا ووٹ جس کو چاہے اس کو دے سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے نظریے کی عزت کرنا جُرم بن گیا تھا۔

مجھے تعجب اور افسوس اس بات پر ہے کہ یہ لوگ جو آج کل ایسے سیاسی لیڈروں کے پیچھے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں، دوسرے کو کم تر تصور کرتے ہیں، یہ لوگ ہماری اور اپنی آنے والی نسل کی کیا پرورش کریں گے۔ جس معاشرے میں دوسرے کے نظریے کو تسلیم نہ کیا جائے اور سنے بغیر ہی اسے برے القاب سے نواز دیا جائے وہ معاشرہ کیسے ترقی کرے گا؟ جو لیڈر آج اس قدر شدت پسندی پھیلا رہے ہیں وہ آپ کا مستقبل کیسے روشن کریں گے؟

آخر میں یہی کہنا چاہوں گی کہ کچھ سال بعد ہم سب اس لیے روئیں یا نہ روئیں کہ ان لیڈروں نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا مگر اس لیے ضرور روئیں گے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کا بیڑا غرق کر دیا۔ اور وہ اس لیے نہیں کہ لیڈر خراب تھے بلکہ اس لیے کہ ہم سب میں برداشت اور دوسروں کے نظریے کی عزت کرنے کا عنصر ختم ہو چکا ہے۔
ایک فکرمند پاکستانی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).