چین اور متحدہ عرب امارات میں تیزی سے بڑھتی ہوئی قربت


چین اپنی نرم حکمت عملی کے ذریعے دیگر ممالک کو تیزی سے اپنی معیشت کے ساتھ اس طرح وابستہ کر رہا ہے کہ وہ ممالک تیزی سے اپنی معیشت کا دارومدار چین کی معاشی ترقی سے مشروط کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر گزشتہ ہفتے چین کے صدر شی نے یو اے ای کا سرکار دورہ کیا۔ یہ ان کا یو اے ای کا پہلا سرکاری دورہ تھا اور تین دن پر محیط رہا۔ یو اے ای کے مرحوم حکمران شیخ زید نے آج سے 34 برس قبل یو اے ای اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کیے تھے اور اس کے بعد 1990؁ء میں انہوں نے چین کا دورہ کر کے اس بات کا واضح اظہار کر دیا تھا کہ یو اے ای چین کو دنیا کی بدلتی صورتحال میں اپنی سلامتی کے حوالے سے ایک خاص اہمیت دے رہا ہے۔ یہ وقت سرد جنگ کے خاتمے کا تھا اور سوویت یونین صرف روس بن چکا تھا۔

انہی دنوں کی یاد تازہ کرنے کے لئے یو اے ای نے چین سے اپنے تعلقات کے قائم ہونے کی سالگرہ کو یو اے ای چین دوستی کے حوالے سے پورے ایک ہفتے تک منایا۔ یو اے ای میں اس دوران دونوں ممالک کے پرچموں کی بہار آ گئی اور صدر شی نے اپنے دورے کے لئے بھی اسی وقت کو منتخب کیا۔ چین عرب دنیا اور بالخصوص یو اے ای میں اپنے قدم مزید مضبوط کر ڈالنا چاہتا ہے کیونکہ چین یہ تصور رکھتا ہے کہ یورو ایشین ممالک سے تجارت کی راہیں اس وقت تک مزید نہیں کھل سکتیں جب تک کہ یو اے ای سے اس کے تعلقات بہترین نہ ہوں۔ پھر چین جس رفتار سے ترقی کر رہا ہے۔ اسی رفتار سے اس کی توانائی کی ضروریات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اور تیل کی ضرورت اس کی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ وہ ان تمام ممالک سے معاملات کو بہتر رکھنا چاہتا ہے کہ جو ممالک اس کی توانائی کی ضروریات پوری کر رہے ہیں یا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

صدر شی کے دورے کے دوران بنیادی اہمیت کے جن معاہدات پر فیصلہ کیا گیا ان میں یہی مسئلہ سرفہرست تھا۔ پھر چین یہ تصور بھی رکھتا ہے کہ اس کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی اس کی تجارتی سرگرمیوں میں کلیدی حیثیت ہے۔ اس لئے وہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو اس میں اپنے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے شامل کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے چینی صدر شی نے یو اے ای میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ ”چین بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹو کے فریم ورک میں یو اے ای سے تعلقات بڑھانا چاہتا ہے“

اسی طرح یو اے ای کے بھی مسائل جداگانہ انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ قطر سے تنازع اور اس سے قبل یمن جنگ میں پاکستان کی شمولیت سے انکار پر یو اے ای کے وزیر کا پاکستان کے حوالے سے انتہائی جارہانہ بیان اور اس کے بعد بھارت کی طرف واضح جھکاؤ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یو اے ای اپنے آپ کو نسبتاً پہلے کی نسبت غیر محفوظ خیال کرنے لگا ہے۔ پھر امریکہ امریکہ ہے اس پر تکیہ کرنے کے باوجود کب اس کا موڈ کیا ہو جائے کیا پتہ۔ ویسے بھی چین کی تیل کے علاوہ یو اے ای سے تجارت کا حجم اس سال 58 ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے۔ ایمار پراپرٹیز یو اے ای میں مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا شاپنگ مال چائینہ ٹاؤن بنانے کا اعلان کر چکا ہے۔

صدر شی کے اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 13 معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں اہم ترین ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی اور چائینہ نیشنل پٹرولیم کمپنی کے درمیان معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ ابو زیبی یہ کوشش بڑے عرصے سے کر رہا تھا کہ اس کو پٹرولیم کے شعبے میں بڑے پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل ہو۔ چین نے اس سے تیل کی ریفارئننگ اور پیٹرو کیمیکل کے آپریشن کے معاملات میں معاہدے کر لئے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک نے سٹرٹیجک شراکت داری فنانشل پروڈکٹس ای کامرس اور زراعت کے شعبوں میں بھی معاہدے کیے ہیں۔ سٹرٹیجک شراکت داری کا ایک عرب ملک سے معاہدہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی جانب ایک غیر مبہم اشارہ ہے۔

اس دورے میں ایک اور بھی خاص بات دیکھنے میں آئی ہے کہ دونوں ممالک کے سربراہان نے ریاست سے ریاست کے تعلقات کے علاوہ ذاتی نوعیت کے تعلقات کو قائم کرنے کی بھی واضح طور پر حکمت عملی اپنائی۔ چینی صدر کو یو اے ای کے سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ آرڈر آف زید سے نوازا گیا۔ خیال رہے کہ یہ اعزاز وہ ہر آنے والے غیر ملکی سربراہ مملکت یا حکومت کو نہیں دیتے۔ مثلاً اس سے قبل ملکہ الزبتھ، شاہ مراکش اور شاہ سلمان کی سطح کی شخصیات کو کہ جن پر یو اے ای بہت انحصار کرتا ہے یہ اعزاز دیا گیا۔ چینی صدر کو خالص النسل عربی گھوڑے کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔

جبکہ یو اے ای کی مادر قوم شیخ فاطمہ جو شیخ زید کے انتقال کے وقت تک ان کی آخری رہ جانے والی بیوی تھی اور نہایت با اثر تصور ہوتی ہے نے چینی صدر کی اہلیہ کے اعزاز میں تقریب منعقد کی۔ یہ بات یو اے ای کی سفارتی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کے لئے نہایت اہم ہے اور معنی خیز ہے۔ کیونکہ وہاں پر ایسا پروٹوکول بہت نایاب دستیاب ہوتا ہے۔ اس اقدام کو دونوں سربراہان کے ذاتی تعلقات کے قائم ہونے کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ چینی صدر اپنا یہ تین روزہ دورہ مکمل کر کے سینیگال روانڈا اور جنوبی افریقہ کے دوروں پر روانہ ہو گئے۔ ان میں وہ جوہانزبرگ میں 25 سے 27 جولائی تک برازیل، روس، انڈیا اور اپنے میزبانوں کے ہمراہ ایک کانفرنس میں شرکت کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).