زبان اور ثقافت سے محروم نسل


تعلیم یافتہ پنجابی اب اپنی گود کے بچوں سے بھی اردو میں بات کرتے ہیں۔ یہ رواج کوئی تیس پینتیس سال پہلے بڑے بڑے شہروں سے شروع ہوا تھا اور اب آہستہ آہستہ دیہاتوں کے غریب اور ان پڑھ گھرانوں تک بھی جا پہنچا ہے۔ ایسے گھرانوں میں اُن پڑھ نوکروں کو بھی بچوں سے اُردو بولنے کا حکم دیا جاتا ہےجو اردو کی الف بے بھی نہیں جانتے، اور گلی محلے کے بچوں کے ساتھ اپنے بچوں کو کھیلنے کی اجازت اس خیال سے نہیں دی جاتی کہ کہیں اُن کی اردو خراب نہ ہوجائے۔

پھر بھی بچہ اپنی مادری زبان کا ایک آدھ لفظ کہیں قسمت سے سیکھ ہی جائے تو ان سے سختی سے ٹوکا اور جاہلوں کی زبان بولنے کا طعنہ دے کر اُس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ایسے والدین کی نظر میں بچوں کا اپنی مادری زبان سے اس طرح انجان ہونا شاید کوئی فخر کی بات ہے۔ ایسے بچے جب ہوش سنبھالتے ہیں تو پہلے پہل وہ ایک عجیب مخمصے میں پڑ جاتے ہیں کہ اُن کے والدین آپس میں اور اپنے ساتھیوں، دوستوں کے ساتھ اُسی زبان میں بات کرتے ہیں، جس سے اُنہیں روک دیا گیا ہے۔ لیکن والدین انہیں بھلی بُری سُنا کر خاموش کروا دیتے ہیں اور بچے بھی آہستہ آہستہ اس منافقت کو قبول کر لیتے ہیں۔

ایسے بچے بڑے ہو کر جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو اُنہیں ہر طرف پنجابی زبان ہی سے واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن یہاں پہنچ کر امیر اور غریب گھرانوں کے بچوں میں ایک فرق آ جاتا ہے۔ کھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں کا میل جول بھی چونکہ ہم پلہ ہمجولیوں ہی سے پڑتا ہے، اس لئے وہ تھوڑی، اور غریب گھروں کے بچے اچھی خاصی پنجابی سیکھ جاتے ہیں۔ لیکن ان کی زبان میں ایک تو اردو کی ملاوٹ بہت زیادہ ہوتی ہے، اور دوسرے یہ بچے پنجابی کو ایک کمتر، گھٹیا اور جاہلوں کی زبان سمجھنے لگتے ہیں۔ اس طرح پنجابی زبان اور اس سے جُڑی ہوئی ثقافت کا دائرہ اپنے ہی گھر سے لگی ہوئی سیندھ کے باعث تنگ ہوتا جا رہا ہے، اور ڈر ہے کہ ایک دو نسلیں گزرنے کے بعد یہ زبان شاید بالکل ہی انپڑھوں، مزدوروں اور مزارعوں کی زبان بن کے رہ جائے گی۔

دُنیا کی کوئی زندہ قوم ہوتی تو ایک یہی بات اُسکے دانشوروں کی نیندیں اڑانے کے لئے کافی ہونا چاہیے تھی، لیکن ہماری بدنصیب قوم کو سمجھ بوجھ کی اتنی بیداری ابھی نصیب نہیں ہوئی۔ ہم بھی زبان کے انسانی زندگی اور ثقافت کے ساتھ مہین رشتوں کی بات کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں اور اس وقت یہاں پر ایسی سیدھی سادی باتیں ہی کرنا چاہیں گے جو آسانی سے ہر کسی کی سمجھ میں آ سکتی ہوں۔

ہمارے کئی دانشوروں اور بچپن ہی سے اردو بولنے والی نئی نسل کے پڑھے لکھے افراد کی اس غلط فہمی کو پہلے ہی سے سمجھ لینا چاہیے کہ اردو ہی اُنکی مادری ہے۔ یہ چھوٹی سی بات سمجھنا اُن کے لئے مشکل ہے کہ مادری زبان وہ نہیں ہوتی جو کسی کی اماں جان اُسکے ساتھ بولتی ہیں۔ مادری زبان کا تعلق دھرتی ماں سے ہوتا ہے، اور یہ کوئی لفظی شعبدہ بازی نہیں بلکہ وہ بنیادی نکتہ ہے جسے سمجھے بغیر زبان اور ثقافت کے تعلق کی کسی بھی پرت کو سمجھا نہیں جا سکتا۔

کسی بھی علاقے کی زبان اُس دھرتی پر بسنے والے لوگوں کے ہزاروں سالوں کے آپسی میل ملاپ اور سماجی زندگی کے تجربوں سے پیدا ہوتی ہے، اور معاشرے کے ہر انسان کی ہڈیوں میں رچی ہوتی ہے۔ اسے سیکھنے کی لئے کسی کو کوئی خاص کوشش نہیں کرنا پڑتی۔ زبان کی پوری لغت، لفظوں کے پردے میں چھپے ہوئے معانی کی باریک رمزیں اور اِن رمزوں کی پرتیں، لفظوں کو برتنے کے نت نئے ڈھنگ، اور ہونٹوں سے نکلنے والے ہر لفظ کے اندر رچے ہوئے ثقافت کے تانے بانوں کی سمجھ ہر فرد کو ایک جیسی ہوتی ہے۔ ایسی زبان بچہ جتنی والدین سے سیکھتا ہے، اس سے کہیں زیادہ وہ گھر سے باہر دوستوں، ملنے والوں، موچی، نائی، تانگے والے اور دوکاندار سے بے دھیانی میں ہی سیکھتا رہتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ زبان صرف لفظوں اور اور ان لفظوں کو جوڑنے والی گرامر ہی کا نام نہیں ہوتا۔ ظاہری بات ہے کہ انسان لفظ بھی ویسے ہی تراشتا ہے، جیسی اُس کے پاس کرنے کی باتیں ہوتی ہیں، اور کسی انسان کے اندر باتیں اُس کے اپنے ارد گرد کے لوگوں اور حالات کے ساتھ اُس کے تال میل سے پید اہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے کسی بھی علاقے کی زبان وہاں کے جغرافیائی، سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی حالات کے ساتھ انسان کے ہزاروں سال کے ٹکراؤ میں سے کمائی ہوئی دانائی کا خزانہ بھی ہوتی ہے۔ زبان انسان کے لئے صرف بات چیت کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ سوچنے، سمجھنے اور پرکھنے کا طریقہ بھی طے کرتی ہے۔ لیکن پنجابی جب اپنے بچوں کو پنجابی چھوڑ کر اُردو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو معاملہ اس طرح نہیں رہتا۔

پنجابی تو ماں باپ انہیں سکھاتے ہی نہیں، لیکن در حقیقت وہ اردو بھی سیکھ نہیں پاتے۔ وہ اس لئے کہ اول تو ان بچوں کو اردو سکھانے والے ان کے والدین خود بھی اردو اچھی طرح سے نہیں جانتے، اور دوسرے، سیکھنے میں جو کمی رہ جاتی ہے وہ بچہ گھر سے باہر دوستوں، ملنے والوں، موچی، نائی، تانگے والے اور دوکاندار سے بھی نہیں سیکھ سکتا۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ بچے کوئی بھی زبان سیکھ نہیں پاتے۔ ایسے بچوں کی لغت تین چار لفظوں کے بعد ختم ہو جاتی ہے، جس کی مدد سے وہ روز مرہ کی بات چیت تو کر لیتے ہیں لیکن کسی باریک اور گنجھلدار بات کو کہنے یا سمجھنے کے وقت ان کی سوئی کہیں نہ کہیں لازماً اٹک جاتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2