بھوکا اور بلوائی


ماں کی گود میں سر رکھ کر، اس کی ڈبڈبائی آنکھوں کوغور سے دیکھتے ہوئے دس سالہ بچّے ارشد نے سوال کیا، ”ماں ہمارے اچھے دن کب آیںگے؟ “ معصوم بیٹے کے اس سوال نے ماں کی روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ گویا ماں کی آنکھوں کو وجہ مل گئی۔ آنسوؤں کے قطرے ٹوٹ ٹوٹ کر ارشد کے گالوں پر اس طرح گرنے لگے جیسے کسی پیر کے ہاتھوں سے ذکر اللّہ کرتے کرتے زمین پر بکھر گئے ہوں۔ تسبیح کا ٹوٹنا، پیر صاحب کے پیرو کاروں کے لئے کرامت کی دلیل ہو سکتی ہے، لیکن معصوم ارشد کی سمجھ سے اس کی ماں کے آنسوؤں کا فلسفہ بالا تر تھا۔

اچھے دن تو اس وقت بھی نہیں آئے، جب وہ بیاہ کر اس گھر میں لائی گئی تھی۔ اچھے دن تو اس وقت بھی نہیں آئے، جب اس کے والد حیات تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کہہ دے، ”بیٹا! اچھا دن تو ایک معمّہ ہے، ایک سراب ہے۔ ہم غریبوں کے اچھے دن نہیں ہوتے۔ یہ امراء کی جاگیر ہے“۔ لیکن اسکے ہونٹ ایک خفیف سی جنبش کے بعد خاموش ہو گئے۔

وہ اب اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔ اس نے ماں کے آنچل سے پہلے تو اپنے چہرے کو صاف کیا، پھر اپنی ماں کے چہرے کو۔ پھر قدرے مسکراتے ہوئے، جو کہ اس کے لئے بہت مشکل کام تھا، کیونکہ گھر میں کچھ نہ ہونے کی وجہ سے اس نے کچھ کھایا نہیں تھا۔ بھوک کے غلبہ نے اس سے اس کی مسکراہٹ چھین لی تھی۔

“ماں تمہیں بھوک لگی ہے؟ تم فکر مت کرو، میں کچھ انتظام کرتا ہوں“۔ اتنا کہتے ہوئے ارشد گھر سے باہر نکل گیا۔ اس سے پہلے کہ ماں کچھ سمجھ پاتی اور اسے روک پاتی، ارشد اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو چکا تھا۔

شام کی سرخی پر رات کی تاریکی غالب ہو رہی تھی۔ ادھر ماں اپنے نور نظر کے لئے پریشان، ادھر بیٹا چند ٹکڑے روٹی کے لئے سرگرداں۔ اب وہ ایک مارکٹ میں پہونچ چکا تھا، جس کی گہما گہمی اپنے عروج پر تھی۔ وہ ایک جگہ کھڑا حسرت بھری نظروں سے لوگوں کو آتے جاتے دیکھ رہا تھا۔ کچھ لوگ اے ٹی ایم کی طرف جا رہے تھے، تو کچھ لوگ ریسٹورنٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کچھ لوگ مختلف دکانوں پر اپنی اپنی ضرورت کی اشیاء خرید رہے تھے۔ کچھ لڑکے اور لڑکیاں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر محو گفتگو تھے۔ جبکہ چند چھوٹے بچّے اور بچیاں ایسے بھی تھے جو پراگندہ اور بوسیدہ کپڑوں اور جسموں کے ساتھ، لوگوں کے پاس جا جا کر ہاتھ پھیلا رہے تھے۔

ارشد ان سب کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک ٹی وی کی دکان پر جا پڑی۔ جہاں کئی ساری ٹی وی پر الگ الگ چینل کے الگ الگ پروگرام آرہے تھے۔ کہیں عورتوں کے امپاورمنٹ کے نام پر ان کے جسموں کی نمایش ہو رہی تھی، تو کہیں مذہبی رہنما اپنے اپنے مسلک کو صحیح ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ایک چینل پر مودی حکومت کی کارگزاریوں پر ڈسکورس چل رہا تھا، تو ایک چینل پر کسانوں کی خودکشی کو لے کر سیاسی بحث ہو رہی تھی۔

لیکن یہ سب باتیں معصوم ارشد کے لئے بے معنی تھیں۔ خاص طور پر اس وقت جب بھوک کی شدّت اپنے عروج پر ہو۔ اس وقت ان بحثوں کا اس کے لئے کوئی مطلب نہیں تھا۔ اس کے لئے کچھ ضروری تھا تو وہ تھی روٹی۔ یہی روٹی جو بادشاہ کے لئے بھی اتنی ہی اہم، جتنی کسی فقیر کے لئے۔ یہی روٹی جس کے لئے عورتوں نے اپنی عصمت تک کو بیچ ڈالا۔ یہی روٹی جس کے لئے مردوں نے اپنی انا کا سودا کیا ہے۔ آج یہی روٹی ارشد کی بھی ضرورت تھی۔

اچانک مارکیٹ کے مخالف سمت سے ارشد کو ایک شور سنائی دیا۔ واقعی شور تھا یا اس کا وہم، وہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔ اب تک یہ شور اتنا واضح ہوچکا تھا کہ اب اسے وہم نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اب وہ اس کا ادراک بہ حسن و خوبی کر سکتا تھا۔

لیکن یہ کیا؟ یہ ایک ایسا ہجوم تھا جس کے سر پر خون سوار تھا۔ ”وندے ماترم“ اور ”بھارت ماتا کی جے“ کے نعروں سے سارا مارکٹ گونج اٹھا۔ ان بلوائیوں کا مقصد اتنا واضح تھا کہ اس بچّے کے نا پختہ ذہن نے بھی یہ بات سمجھ لی تھی کہ یہ لوگ کسی خاص طبقے کے لوگوں کی دکانوں کو نشانہ بنانے آئے ہیں۔

خوف کی وجہ سے اس کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر گیا۔ ہجوم سے کچھ لوگ اس کی طرف بڑھے، اسے ٹٹول کر دیکھا۔ اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔
ہجوم سے ایک آواز آئی ” پینٹ اتارو“۔

پینٹ اتاری گئی۔ اس کے بعد اس معصوم کے ساتھ جو ہوا، اس سے انسانیت ایک مرتبہ پھر شرمندہ ہوگئی۔ ایک معصوم کی لاش اور سینکڑوں سوال، ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے تھے۔

طفیل احمد خان
Latest posts by طفیل احمد خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).