وسوسوں اور قیاس آرائیوں کے برعکس الیکشن 2018 کا انعقاد


تمام تر وسوسوں اور قیاس آرائیوں کے برعکس الیکشن 2018 کا انعقاد بطریق احسن تکمیل کو پہنچا۔ اب تک الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری نتائج کے مطابق عمران خان نیازی کی پاکستان تحریک انصاف واضح سبقت لیے ہوئے ہے۔ جدید ترین RTS نظام کے استعمال میں تکنیکی خامیوں نے اگرچہ انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے ہیں لیکن ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ( نواز) کے سربراہ میاں محمد شہباز شریف نے اس بات کا عندیا دیا ہے کہ وہ اپنے تمام تر تحفظات کا باوجود حزب اختلاف میں بیٹھ کر نظام کی بقا میں اہم کردار ادا کرنے جارہے ہیں۔ یہ انتہائی حوصلہ افزاء اور خوشگوار لمحات ہیں کہ جمہوریت کو بالآخر پنپنے کے مواقع درپیش ہیں۔ مسلسل چوتھی قانون ساز اسمبلی بننے جارہی ہے۔ سیاسی شعور ہی جمہوری نظام کے ارتقاء کا موجب بنتا ہے۔

جناب عمران خان صاحب کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہونے جارہا ہے۔ قولی مراحل سے اب انہیں عملی زندگی کا آغاز کرنا ہے۔ فتح کے بعد پہلی تقریر قریب قریب انہی نکات پر مبنی تھی جن کا اعادہ وہ سال ہا سال سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ روایتی سیاستدانوں کے چنگل میں ہونے کے باوجود کس حد تک وہ مجوزہ اقدامات کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ مقاصد کا حصول مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہی۔ یہی وہ امید ہے جس نے تحریک انصاف کو خیبر سے کراچی تک مینڈیٹ دیا ہے۔ امن، تعلیم، روزگار، صحت، صاف پانی، ماحولیات، اور معاشرے کی تمام اکائیوں کو برابری کی سطح پر عدل و انصاف کی فراہمی نئی حکومت کی بنیادی ترجیحات ہونی چاہییں۔

دیکھا جائے تو تحریک انصاف پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کی پارٹی پالیسی میں لسانیت، صوبائیت، اور فرقہ واریت کا کبھی دخل نہی رہا۔ یہی وہ بنیادی کمزوری بھی تھی جس کی وجہ سے اس جماعت کو قومی جماعت بننے کے لئے بائیس سال پاپڑ بیلنے پڑے۔ ایک پوری جنریشن کی تربیت کے بعد اس مقام تک پہنچی کہ لوگوں نے اجتماعیت کو گروہی و فروعی اختلافات پر فوقیت دی۔ اب خواہ کراچی کے اردو بولنے والے ہوں یا پٹھان، پنجابی ہوں یا سندھی، بلوچ نیشنلسٹوں سے لیاری کی بستی تک، سب نے ایک ہی جماعت کو چنا۔ اس سب کے پیچھے بس ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے عمران خان کا وعدہ کہ وہ انسانوں کی فلاح کے لیے کام کریگا۔

عمران خان صاحب اگر یہ بنیادی سہولیات دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو پھر ہر طرف امن ہی امن کی آشا ہوگی۔ ملک ملک مسائلستان سے خوشحالستان میں بدل جائے گا۔ پسماندہ ترین طبقات جنہیں عرف عام میں اقلیتیں کہا جاتا ہے جھاڑو پونجھے سے نکل کر وہ مقام حاصل کرلیں گے جس کے لئے مالک کائینات نے انہیں اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بخشا ہے۔ بہتری کے مواقع سب کو یکساں میسر ہوں گے۔ قانون کی بالادستی سے وسائل کو مسائل کے تدارک کے لئے استعمال میں لایا جائے گا۔

مقاصد کا حصول ہنرمند افردی قوت کے بنا ناممکن ہے۔ بد قسمتی سے امن و امان کے نامساعد حالات اور بدترین اقتصادی و مالیاتی پالیسیوں سے ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانیوالی صنعتوں کے بنگلہ دیش منتقلی نے ہنرمند افرادی قوت کو بانجھ بناکے رکھدیا۔ سرمائے کی بیرونی منتقلی نے مہنگائی اور افراط زر میں ہوشربا اضافہ کرکے زندگی کو انسانوں پر تنگ کردیا ہے۔ خان صاحب کو اس سب کو معمول پر لانے کے لئے نہ صرف سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنا ہوگا بلکہ وہ افرادی قوت جو خلیج و یورپ میں روزگار کے لئے جاچکے ہیں کو واپس آنے کا حوصلہ دینا ہوگا۔

ایک اور مسئلہ جو حکومت کے قیام کے ساتھ ہی درپیش آنا ہے وہ ہے اداروں کی بحالی۔ پاکستان سٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے اور واپڈا جو ایک وقت میں منافع بخش ادارے تھے، کیا وجہ ہے کہ ملکی معیشت پر سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں۔ نجکاری کمیشن کو معطل کرکے فورا ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے اور ان قومی اداروں کو بحال کرکے انہیں نفع بخش بنانے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ ان اداروں کی نجکاری سے نہ صرف قومی وسائل صنعتکاروں کے ہاتھ لگ جائیں گے بلکہ ملک کی ہنرمند آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ بے روزگاری کے دہانے پہ آکھڑا ہوگا۔

غور کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ تمام ادارے وہ ہیں جن کو انجینئرز چلاتے ہیں۔ کسی ملک کی ترقی کا انحصار وہاں موجود انجینئرز کی تعداد اور صلاحیتوں پر ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ قابل ترین انجینئرز یا تو ملک سے باہر شفٹ ہو رہے ہیں یا پھر سول سروسز کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ان اداروں کے مستقبل پر چھائے اندھیرے چھٹ نہی جاتے۔ انجینئرز کے لئے کوئی سروس سٹرکچر نہی آجاتا۔

خان صاحب اگر ان اداروں اور ان کے ملازمین کو بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر فیصلہ لیں تو وہ دن دور نہی جب پروجیکٹس کی تکمیل ہم اپنے وسائل سے کر رہے ہوں گے۔ جب اپنے وسائل اور اپنے لوگ ہوں گے تو پھر کشکول ٹوٹتے وقت نہی لگنا۔ اس قوم کو اللہ پاک نے صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ دیر بس مواقع کے میسر آنے کی ہے۔ ماحول کو سازگار بنانا حاکم وقت کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکمران اسے پورا کرتے ہیں تو ایک عام پاکستانی کی طرف وعدہ ہے کہ یہ قوم اپنے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی صلاحیتیں بھی رکھتی ہے اور حوصلہ و ولولہ بھی۔
اسی کے لئے تو کہا گیا ہے کہ
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).