نیا لالی پاپ


ابھی سرکاری انتخابی نتائج کا اعلان بھی نہ ہوا تھا کہ تحریکِ انصاف کے سر براہ عمران خان نے ’عوام سے خطاب‘ نما تقریر کر ڈالی۔جیت کا یقین ہو تو ایسا۔ واہ ! جی خوش کر دیا۔ اب پیچھے رہ گئے ہارنے والے تو انھوں نے حسبِ توقع اور حسبِ روایت دھاندلی کا رونا شروع کر دیا۔

انتخابات میں دھاندلی کرنا، سفارشی بھرتی کرانا، امتحان میں نقل کرنا اور تاریخِ پیدائش میں ہیر پھیر کرنا ہمارے ایسے قومی کھیل ہیں جنھیں کھیلے بغیر کوئی بڑا نہیں ہو سکتا۔

عمران خان نے سیاست کا سفر شروع کیا تو میں ابھی کالج میں تھی۔ میں تو ابھی تک خود کو طفلِ مکتب ہی سمجھتی ہوں مگرعمران خان ایسا سیاسی قد نکال گئے کہ اب کہیں بادلوں سے اوپر سر ہے۔ ظاہر سی بات ہے پرانے کھلاڑی ہیں۔

یورپی یونین کے مبصرین کو انتخابات میں ‘غیر جمہوری قوتیں’ نظر آ رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کو ‘خلائی مخلوق’ بھی دکھائی دی۔ درجنوں کے حساب سے ویڈیوز ادھر سے ادھر بھیجی جا رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔

عرض یہ ہے کہ جو ہوا، وہ آ ج سے نہیں ہو رہا۔ ہمارا خاصا خرچہ ہو گیا ہے، کئی دیہاڑیاں ضائع ہو ئی ہیں، ہم روز کی روز کما کر کھانے والے لوگ ہیں، آ پ کی میوزیکل چیئر کے لیے کب تک اپنا کندھا پیش کرتے رہیں گے۔؟ ’ بندھ گیا سو موتی، رہ گیا سو کنکر‘۔ اب عمران خان اپنے نو رتنوں کے ساتھ میدان میں آ ئے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو

ان کی تقریر سن کر سب نے واہ واہ کی، بغلیں بجائیں اور نقارے پیٹے۔ ہاں جو سنا تھا کہ مشرقی سرحد کی طرف منہ کر کے بکرے بلائے جائیں گے، وہ نہ ہوا، سفید کبوتر چھوڑے گئے۔ شنید ہے کہ کبوتروں کو پکڑ لیا گیا ہے اور ان کی جانچ پڑتال ہو رہی ہے کہیں مخبر ہی نہ ہوں۔

عمران خان کی مختصر تقریرکے تین اہم نکات تھے خارجہ پالیسی، خارجہ پالیسی اور خارجہ پالیسی۔ تقریر کی طرح انھیں خارجہ پالیسی کے اعلان کی بھی جلدی تھی۔ باقی باتیں تو ظاہر ہے تقریر کا مکھڑا سنوارنے اور مجھ جیسے احمق عوام کو بہلانے کے لیے شامل کی گئیں۔ وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کا لالی پاپ ہمیں جونیجو صاحب نے بھی دیا تھا، 600 سی سی گاڑیاں بھی خریدی گئی تھیں۔ نواز شریف نے کشکول توڑنے کی باتیں کیں تھیں۔

بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان لائے تھے اور جنرل ضیا نے ہمیں چادر اور چاردیواری کا ایسا تحفظ دیا کہ ہماری نسلیں یاد کریں گی۔ جنرل مشرف ‘این لائٹینڈ ماڈریشن’ کی سستی ٹافی لائے اور پھر ہم نے ‘میثاقِ جمہوریت’ کا گھونٹ پیا۔

خارجہ پالیسی کی یہ لائیں جس میں کشمیر کا کہیں ذکر نہیں ہے کافی حد تک قومی مفاد میں نظر آ تی ہے۔ ظاہر ہے ہمسائیوں کے ساتھ دوستی ہونی چاہیے لیکن دوستی کی شرائط کیا ہوں گی، یہ بھی واضح بھی کیا جانا چاہیے۔ ابھی تک تو سب کچھ روایتی چل رہا ہے اور روایت یہ ہی ہے کہ ہم جب بھی کوئی انقلابی بات کرتے ہیں تو اصل میں ملک کا بیڑہ غرق کرنے جا رہے ہوتے ہیں جو 25 سے 30 سال میں مکمل غرق ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ خارجہ پالیسی کے یہ اصول کیا صرف چار پڑوسیوں کے لیے ہی ہوں گے یا وسط ایشیا کی نو آزاد ریاستوں سے بھی تعلقات استوار کیے جائیں گے جو تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے ہمارے بہت قریب ہیں۔

عمران خان

باقی رہی بات کہ ملک کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنائیں گے اور چین کا ماڈل سامنے رکھ کے غربت مٹائیں گے۔ سول اداروں میں ہوٹل اور یونیورسٹیاں کھولیں گے، کسان کے غم دور کریں گے، احتساب کریں گے تو اب ہم بہلے ہوؤں کو مزید نہ بہلائیں۔ تعلیم، صحت اور زراعت ان شعبوں میں لفاظی کے جوہر دکھانے کی بجائے زمینی حقائق کو سمجھ کر پالیسیاں بنائیں۔

اتنا تو معلوم ہو گیا کہ ‘ان’ کے لیے صرف خارجہ پالیسی اہم ہے یعنی باقی میدان صاف ہے اور تحریکِ انصاف کے لیے سنہری موقع ہے کہ عوام کے دیرینہ مطالبات اورخواہشات کو پورا کرے۔ تعلیم اور صحت کو نجی شعبے سے آزاد کرا کے ملک میں یکساں تعلیمی نظام اور علاج کے بہتر اور مساوی مواقع فراہم کرے۔

زراعت کے شعبے کی اصلاحات کا مطلب صر ف زرعی ٹیکس اور زمین کی کٹوتی نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ شعبہ ‘کالونی باز’ انوسٹرز کی دلچسپی اور حکومت کی بے اعتنائی کا شکار ہے۔

پہلی تقریر کے لالی پاپ تو ہم نے پرانے لالی پاپ کے ساتھ سنبھال کر رکھ لیے ہیں لیکن اگر واقعی تحریکِ انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو کم سے کم ان تین شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے باقی دو شعبے جن میں بہت بگاڑ ہے ان کا معاملہ ہم اللہ پہ چھوڑتے ہیں، ان سے خدا ہی پوچھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).