چندا ماما کی گمشدگی، چاند گرہن اور معاذ میاں کی تشکیک


حیاتِ انسانی میں شے یا مظہر سے جڑی رومانوی معنویت معدوم ہونے کے قریب ہے۔ منظر کو دیکھ کر ٹھٹک سا جانا، سحر میں مبتلا ہو جانا شاید اب بھی ممکن ہے لیکن یہ تجربہ اب کوئی عمومی تجربہ نہیں۔ اس کی ذمہ دار نوعِ انسانی کی وہ مخصوص وجودی حالت ہے جو اساطیری تناظرکو ایک دلچسپ اور معنی خیز تناظر ماننے سے جھجکتی ہے۔ اس جھجک میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس سے بھی شاید کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس حالت کو جمالیاتی بگاڑ کہیں یا پھر ذہنی و نفسیاتی ارتقاء کا ایک منطقی پڑاؤ، زیادہ اہم وہ ثقافتی مظاہر ہیں جو ایک خاص قسم کی لامعنویت یا خلا سے عبارت ہیں۔

کیا اس کی وجہ ہمارے ہاں اساطیری تناظر یعنی ’’متھ‘‘ کو لازماً خالص واقعاتی تناظر یعنی’’فیکٹ‘‘ کے متضاد ایک دوئی کی صورت لانے کے ہیں؟ یا پھر یہ موضوع اور معروض کی کلاسیکی دوئی ہے جہاں شعور اپنے خارج کی جانب فہم کی خاطر بڑھتا ہے تو ہر واقعے کو لازماً علت و معلول کی کڑی میں ہی پروتا ہے؟ کیا کسی بھی ثقافت کے لیے رومانویت ایک بے معنی شے ہے؟ اگر شعور کے لیے مستند ترین معنی عقلیت پسند تناظر میں دستیاب ہیں تو پھر کوئی ثقافت کس طرح اور کس سطح پر آرٹ، فنونِ لطیفہ اور موسیقی وغیرہ سے معنی حاصل کر سکتی ہے؟

چاند کی مثال ہی لے لیجیے۔ انسانی زندگی میں اس کی رومانویت کتنی رہ چکی ہے؟ میرا فلیٹ آٹھویں منزل پر ہے۔ رات گئے پردے ہٹا کر نیت باندھ کر دو گھڑی ٹکٹکی باندھوں تو اب بھی کسی قدر سحر طاری ہوتا ہے۔ لیکن ذرا اپنی شعوری حالت پر غور کروں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی ایسا خودکار تجربہ نہیں جو جمالیاتی بالیدگی کا مرہونِ منت ہو بلکہ اس میں شدت سے عقل کی آمیزش ہوتی ہے۔ مجھے اپنی حالت کچھ کچھ سمجھ آتی ہے لیکن حیران ہوں کہ معاذ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ اس کی عمر اب آٹھ سال ہے۔ سنا تو یہی ہے کہ بچپن کی حد تک شعور کو سدھارا جا سکتا ہے۔ بچے ہماری طرح کا ایمان بالغیب رکھتے ہیں اور ذہن میں اٹھنے والے سوالوں پر زیادہ غور کر بھی لیں تو دو چار منٹ بعد ہی کسی کھیل کود میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر مذہبی اعتقادات خود بخود کئی مواصلاتی ذریعوں سے ہمارے بچوں کے لاشعور کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔ تقریباً تین چار سال سے معاذ کو یہ باور کرانے میں لگا ہوں کہ چاند ایک نہایت خوبصورت، پراسرار، جادوئی سرزمین ہے۔ جب میں بہت زیادہ اصرار کرتا ہوں کہ وہاں ہمیشہ سے ایک بوڑھی عورت رہتی ہے تو مجھے کبھی کبھی شک ہوتا ہے کہ وہ شدت سے انکار کے باوجود کچھ کچھ یقین کرنے لگا ہے۔ یعنی شاید اسے ایک فی صد شک ہو گیا ہے کہ آخر ابا کہہ رہے ہیں تو شاید ٹھیک ہی ہو گا۔

چاند گرہن کا خیال آیا تو میں نے ایک بار پھر معاذ سے اصرار کیا کہ چاند پر بڑھیا رہتی ہے۔ اس کا چرخہ خود کائنات جتنا پرانا ہے۔ وہی شاید کچھ کرتی ہے تو یہ لال سرخ ہو جاتا ہے۔ وہ ایک بار پھر اسی طرح ہنسا جیسے کہہ رہا ہو کہ کیا فضول کا مذاق ہے۔ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ انکار میں شدت تھی تو میں نے کہا تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ وہاں کوئی نہیں رہتا؟ کہنے لگا ہوتی تو ’’ایسٹروناٹس‘‘ بتا دیتے۔ میں نے کہا ہو سکتا ہے جب وہ وہاں جاتے ہوں تو بڑھیا چھپ جاتی ہو۔ کہنے لگا یہ بالکل ’’اِم پاسی بل‘‘ ہے بابا کہ وہاں کوئی رہتا ہو۔ میں نے کہا ’’اِم پاسی بل‘‘ کس طرح ؟ کیا ممکن نہیں کہ ’’ایلئینز‘‘ ہوں وہاں؟ جب میں نے ’’ایلئینز‘‘ کا کہا تو کہنے لگا ہاں وہ تو ممکن ہے۔ لیکن پھر آپ اسے ’’بڑھیا‘‘ تو نہ کہیں۔ آپ نے کون سا خود دیکھی ہے۔ میں نے کہا بس میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ تم یہ نہ مانو کہ وہاں بڑھیا واقعی موجود ہے، لیکن یہ تو نہ کہو کہ ’’اِم پاسی بل‘‘ ہے۔ کہنے لگا ماسٹر شیفو نے بھی کنگ فو پانڈا کو یہی کہا تھا کہ کچھ ’’اِم پاسی بل‘‘ نہیں ہوتا۔ ہم کہیں باہر تھے، کچھ دیر اور بحث جاری رہی تو کہنے لگا کہ اچھا گھر چل کر گوگل کرتے ہیں، ابھی پتا چل جائے گا۔ واپس آ کر ہم دونوں نے یو ٹیوب پر دیکھا کہ پورے چاند گرہن میں چاند سرخ کیوں ہو جاتا ہے۔

میرے خیال میں لاشعوری سطح پر یہ جمالیاتی سانحہ بہت اندوہناک ہے اور شعوری سطح پر اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کافی پیچیدہ اور دلچسپ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ قوامِ معنی کی حد تک چھ سات سال کے بچے اور ہماری لاشعوری حالت میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ ’’پیارے نبی ﷺ کے عظیم معجزے‘‘ جیسی کتاب میں لکھے واقعات پر معاذ اگر ایک فی صد نہیں تو شاید دو فی صد اعتبار کر لیتا ہے کیوں کہ کتاب میں لکھے ہوئے کا معنوی استحکام زیادہ کامیاب التباس کا حامل ہوتا ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ کیا ’’متھ‘‘ اور ‘‘فیکٹ’’ کی دوئی حیاتیاتی ارتقاء کی سطح پر ثقافتی شعور کا حصہ بن چکی ہے؟ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ لیکن کم ازکم میرے لیے نفسیاتی سطح پر یہ صورتحال بہت ہولناک ہے۔ میں نے ڈراؤنی کہانیاں سنا سنا کر بہت مشکل سے معاذ میں انجانے کا خوف پیدا کیا ہے کیوں کہ دونوں بڑے بچے میری اس غلطی کی وجہ سے بالکل نہیں ڈرتے۔ میں ماہرین نفسیات کی یہ بات ماننے سے قاصر ہوں کہ خوف کوئی منفی قدر ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک تو کامیاب تحلیل نفسی کے بعد خواب ہی بند ہو جانے چاہیے ہیں۔ یہاں صحت مندی کی حالت یہ ہے کہ سوتے میں کیا بچے تو جاگتے میں خواب دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ ٹیلی وژن پر کچھ دیکھتے ہوئے ہماری آنکھوں میں آنسو آئیں تو بچوں کی ہنسی نکل جاتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کیا وہ رونے کے قابل بھی نہیں رہے؟ خواب نہیں دیکھیں گے، روئیں گے نہیں تو کیسے چلے گا؟

فیکٹ کے مقابلے میں متھ کو توہم پرستی قرار دینا ہماری مجبوری ہے کیوں کہ ہم ثقافت کے ان تمام منفی مظاہر کو متھ کے تحت لاتے ہیں جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ خالص مذہب پسند ،خالص عقلیت پسند، نیم مذہب پسند اور نیم عقلیت پسند، عقلیت پسند مذہبی، متکلمین، روایت پسند، متجددین، ملحدین، متشککین، سب متھ کی مخالفت میں شریک ہیں۔ یہاں تک کہ ادیب اور شاعر بھی متھ کی دنیا کو واقعاتی دنیا سے علیحدہ کر کے اول الذکر کو غیرمعقول اور آخرالذکر کو معقول ہی مانتے ہیں۔ مذہبی علمیات کی سطح پر اساطیری منظرنامہ بالکل باطل ہے۔ خلیج اتنی بڑی ہے کہ شاید ہی کبھی پاٹی جا سکے۔ مذہبی علمیات میں تاحال اس مسئلے کا کوئی حل نہیں کہ جب چاند خالص سری سطح پر ہی انسان کے لیے بے معنی ہو چکا ہے تو چاند گرہن کی علامتی حیثیت چہ معنی دارد؟ یہ مسئلہ روزِ قیامت پر ایمان بالغیب کا نہیں بلکہ آسمان پر نظر آنے والی چاند نامی اس گول سی روشن پراسرارشے کی اس خالص استعاراتی یا اساطیری حیثیت کا ہے۔ مسئلہ مذہبی روایات یا رسومِ عبادات کی ایک ثقافتی حیثیت کا نہیں، یہ تو محض رواج کی بات ہے۔ بہت سے لوگ چاند یا سورج گرہن کے وقت صلاۃ الخسوف پڑھیں ، توبہ استغفار کریں، سجود میں گر جائیں تو بشریاتی تناظر میں ایک حلقۂ پرستش تو وجود میں آ جائے گا لیکن بہت عرصہ باقی نہیں رہے گا۔ جلد ہی کوئی اس تنی ہوئی رسی کے ٹوٹے ہوئے ریشوں پر سوال اٹھا دے گا جو اوپر سے نیچے کی جانب قیاس کی جا رہی ہے۔ اس رسی کے ایک جانب میتھوس ہے اور دوسری جانب لوگوس۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ساتھ ساتھ ہی مذہبی علمیات واقعاتی سطح پر کچھ غیبی حقائق کی جانب اساطیری جست لگانے کے قابل بھی ہے، لیکن اسے اسطور نہیں بلکہ واقعہ کہنے پر اصرار کرتی ہے۔

سوال یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ کیا مذہبی علمیات چاند گرہن کو آیت خداوندی کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس لمحے کو رسمِ عبادت کے ذریعے کسی عرفانی سرشاری کی ساعت میں تبدیل کر سکتی ہے؟ اگر ایسا ہو جائے تو سمجھیے متھ تخلیق ہو گیا۔ چلیے مان لیا کہ قرآن، عہدنامۂ قدیم، یسوع مسیح علیہ السلام کی شکل میں مذہبی روایت اب بھی لوگوس رکھتی ہے، لیکن میتھوس کا کیا جائے؟

خیر مزید سوچتے ہیں معاذ کو کیسے قائل کیا جائے۔ خیال آرائی کے علاوہ اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi