42 ہزار سال پرانا جاندار دوبارہ زندہ ہو گیا؛ موت کے بعد زندگی کی طرف سائنسدانوں کا اہم قدم


روسی ماہرین نے امریکی جامعہ پرنسٹن یونیورسٹی کے تعاون سے ہزاروں برس سے برف میں جمے 300 کیڑوں کا مطالعہ کیا جن میں سے زندہ کرنے کے لیے موزوں ترین امیدوار کیڑوں کا انتخاب کیا گیا۔ بہت تحقیق کےبعد ان میں سے چھان پھٹک کرکے صرف دو کیڑوں کو ہی منتخب کیا گیا۔

سائنس دانوں نے دو ایسے کیچوے نما کیڑوں کو زندہ کر دکھایا ہے جو 42 ہزار برس سے مکمل طور پر برف میں ڈھکے ہوئے ایک علاقے سے ملے تھے۔ اس اہم کامیابی سے جان داروں اور بالخصوص انسانوں کو وقتی طور پر منجمد کرکے دوبارہ زندہ کرنے کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔

ماہرین کے مطابق یہ کیڑے اتنے قدیم ہیں کہ اس زمانے میں بڑے بالوں والے ہاتھی (وولی میمتھ) موجود تھے جو اب ناپید ہوچکے ہیں۔ ماسکو میں انسٹی ٹیوٹ آف فزیکو کیمیکل اینڈ بائیلوجیکل پرابلمز آف سوئل سائنسز کے ماہرین نے ان دونوں کیڑوں کو تجربہ گاہ کی پیٹری ڈش میں زندہ کر کے دکھایا ہے۔

روسی ماہرین نے امریکی جامعہ پرنسٹن یونیورسٹی کے تعاون سے ہزاروں برس سے برف میں جمے 300 کیڑوں کا مطالعہ کیا جن میں سے زندہ کرنے کے لیے موزوں ترین امیدوار کیڑوں کا انتخاب کیا گیا۔ بہت تحقیق کےبعد ان میں سے چھان پھٹک کرکے صرف دو کیڑوں کو ہی منتخب کیا گیا۔

ان میں سے ایک کیچوا 2015ء میں مستقل برف میں ڈھکے خطے کے الازیا دریا کے پاس سے ملا ہے اور وہ 41 ہزار 700 سال پرانا ہے جب کہ دوسرا کیڑا 2002ء میں کسی گلہری کی کھوہ کے اندر سے ملا ہے جو کہ 32 ہزار سال قدیم ہے۔ دونوں کیڑے بظاہر مردہ دکھائی دے رہے تھے کیونکہ وہ برف میں جم ہوچکے تھے۔

واضح رہے کہ روسی ماہرین بالوں والے قدیم ہاتھی ’میمتھ‘ کو بھی دوبارہ زندہ کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں اور جراسک پارک فلم کی طرح وہ ہزاروں برس سے برف میں ڈھکے علاقوں سے ملنے والے میمتھ میں درست ڈی این اے تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر پورا ڈی این مل جاتا ہے تو اسے آج کے ہاتھیوں میں داخل کرکے اس سے میمتھ کو دوبارہ کلون کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ جہاں سے یہ کیڑے ملے ہیں وہ روس کے سرد ترین علاقے ہیں اور مستقل برف میں ڈھکے رہتے ہیں۔ اسی لیے یہاں سے ملنے والے کیڑے بہترین حالت میں اسی طرح محفوظ ہیں جس طرح ڈیپ فریزر میں گوشت محفوظ رہتا ہے۔ ماہرین نے نیماٹوڈز کیڑوں کو احتیاط سے منجمد حالت سے نکالا اور وہ تھوڑی دیر بعد ہلنے لگے اور کھانے لگے۔

اس اہم تحقیق سے معلوم ہوا کہ کثیر خلوی پیچیدہ جاندار ہزاروں سال برف میں منجمد رہنے کے باوجود زندہ ہوسکتے ہیں۔ اس مطالعے سے کیڑوں کی اس حیرت انگیز صلاحیت کے راز جاننے میں مدد ملے گی اور اس سے ادویات ، منجمد طریقہ علاج، کرایو اور ایسٹرو با ئلوجی میں بھی بہت مدد ملے گی۔

دوسری جانب انسانوں کو مرنے کے بعد ان کی خواہش کے مطابق منفی 170 درجے سینٹی گریڈ پر اس لیے منجمد کیا جارہا ہے کہ کبھی سائنس جب ترقی کرلے گی تو انہیں دوبارہ زندہ کرلیا جائے گا۔ اب تک درجنوں افراد ایسی کمپنیوں کو خطیر رقم دے کر فریز ہوچکے ہیں۔

اس معاملے نے سائنس دانوں کو دو دھڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ ناممکن ہے جبکہ دوسرے ماہرین کا اصرار ہے کہ یہ ممکن ہے۔ اب منجمد کیڑوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے بعد اس متنازع علم کی اہمیت بڑھی ہے جسے کرایونکس کہا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).