اقبال کی نظم شکوہ پر ایک خوگر حمد کا گلہ


شکوہ میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے خدا سے باتیں کی ہیں۔ شکوہ کے صاحبِ تخلیق اپنی دیگر شاعری میں انتہائی تابع فرمان شریعت و پاسبانِ اسلام اور علم بردار توحید بن کر سامنے آتے ہیں۔ جو تین اصطلاحات میں نے استعمال کی ہیں۔ ان تین صفات سے متصف مسلمان یا صاحب ایمان خدا سے کسی قسم کا شکوہ کرنے کا مجاز ہی نہیں۔ کجا یہ کہ شکایات کا انبار لگا دیا جائے اور خدا کو، جس پر بصیرت اور علم تمام ہے، اُسے اپنے کارہائے نمایاں یوں جتلائے جائیں گویا احسان یاد کروائے جا رہے ہوں۔

علامہ اقبال کی تمام شاعری پر اس وقت لکھنا ممکن نہیں۔ شکوہ بنام خدا تو قبول ہوا مگر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی شاعری پر اعتراض یا شکوہ ہماری قوم کو قبول نہ ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال جب شکوہ کو باریکی کے ساتھ پڑھا اور باربار پڑھا تو اُس پوری نظم میں تاریخ ہی بھری پڑی تھی جنگ وجدل کی، جس کو نہ تو کہیں اصولی بتایا گیا نہ ہی وجوہ بیان کی گئیں۔

یہ نظم خدا علیم و بصیر کیلئے تو بہرحال لکھی نہیں گئی تھی۔ اس کا اصل مخاطب تو برصغیر کا مسلمان تھا۔ محض جنگوں اور فتوحات کے دئیے گئے حوالوں سے میرے جیسا کم عقل شخص محض یہی سبق حاصل کرکے رہ جاتا ہے کہ ہم نے ماضی میں صرف عبادات کیں اور جنگیں لڑیں۔ کیوں لڑیں تو شاعر کہتا ہے خدا کیلئے لڑیں اور بات کو محدود کر دیتا ہے۔ جب کہ ایک تاریخ دان ڈاکٹر کی ڈگری لینے کے بعد ان جنگوں کے لامحدود اسباب کا احاطہ نہیں کرتا۔ اس غفلت کا ذمہ دار ایک شاعر ہو سکتا ہے مگر جس شخص کو بیسویں صدی کے اوائل میں عہد ساز کے منصب پر ہم عصروں نے بٹھایا اور عظیم فلسفی اور رہنمائے نجات بنا کر پیش کیا، وہ نہیں ہو سکتا۔

اس غفلت کے باعث ہمارے اندر جس آہستگی سے شدت پسندی سرایت ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ شکوہ نظم میں کہیں کسی مسلمان کی فہم و فراست، سیاسی شعور، فکری اصابت کا موہوم سا بھی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ جبکہ حضرت شاعر کافر حسیناﺅں کے حسن سے متاثر اور کفار میں اُن گوریوں کی موجودگی اور کفار کے اُن کے ساتھ مراسم سے خاصے بددل نظر آتے ہیں اور انہیں یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ برصغیر کی خواتین کی ظاہری شکل و صورت کو اس طرح کمتر ٹھہرا جاتے۔ مسلمان کی پونجی ایمان ہے۔ جو صاحب اپنے ہی نظریہ سے ٹکرا بیٹھے کہ باایمان عورت پر کافر حسیناﺅں کو فوقیت دی۔

خلاصہ ہے یہ کہ خودکش حملہ آوروں کی ذہنی تربیت اور نظم شکوہ کی آپس میں ایک گہری نظریاتی مماثلت پائی جاتی ہے۔ جس قوم کو ایک ایسا شاعر جو کہ شدت پسند ہو، اُسے حکیم الامت ، شاعر مشرق اور عظیم فلسفی کے طور پر پیش کیا جائے۔ جس کی شاعری کو رہبری کا درجہ دیا جائے تو اس کا نقصان سائنسی ترقی سے خوف کھاتی ، فکر سے دور ہٹتی، ذہنی طور پر پسماندہ قوم ہی ہے جو ہر چھوٹے بڑے دینی مسئلے پر مر مٹنے کو تیار ہے۔ فکری اور سائنسی بنیاد محض اس لئے نہیں اپناتی کہ ہر مسئلے کا حل اسلام کی غلبے میں نظر آتا ہے مگر مسلمان غالب کیسے ہو، وہ معلوم ہی نہیں۔ میں نوافل پڑھوں تو کیا کوئی نئی ایجاد ہوگی؟ ہرگز نہیں۔

اس کیلئے اس مخصوص سوچ سے باہر نکلنا ہوگا کہ چڑھائی کرکے دوسرے پرکامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس سوچ نے اب ہمیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ دوسرے کسی ملک پر چڑھائی کر کے اُن کی ہی ترقی سے خود فائدہ اٹھالیں۔ کیونکہ ہم عسکری طور پر بھی کتنے مستحکم رہ گئے؟ کون سا اسلحہ ہے جو ہمارے ملک میں بنتا ہے اور کیا ہم معاشی طور پر اتنے مستحکم ہیں کہ چڑھائی کرنے کا، اپنا ہی پانی واپس لینے کا ارادہ بھی کر سکیں؟ اقبال ایک اچھے شاعر ہیں، اچھے تاریخ دان ہیں۔ مگر اُن کا فلسفہ، جو شکوہ میں ہے، پورے پاکستان کیلئے گمراہ کن ہے۔ بنیادی طور پر یہ فلسفہ ہے ہی نہیں بلکہ محض تاریخ کے چند باب ہیں جو منظوم طرز پر پیش کئے گئے ہیں۔ کیونکہ فلسفہ کائناتی ہوتا ہے۔ مذہب یا قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ فلسفہ کی بنیاد حقائق اور سچ کی تلاش اور ارتفاع خیال ہے۔

یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ شکوہ جس دور میں لکھا گیا ، اس زمانے کے سیاسی حالات کی روشنی میں اس کا جواب جو کہ جواب شکوہ کی صورت میں منظوم کیا گیا، قابل عمل تھا بھی یا نہیں۔ اس سوال کا جواب ایک الگ بحث کا متقاضی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).