بھٹو کا نواسا لیاری سے ہار گیا: آخر کیوں؟



فاتح کپتان عمران خان صاحب کی فتح کے بعد وکٹری سپیچ میں ملک میں غربت کے خاتمے کئے چین کے ماڈل کو اپنانے والی بات سن کر مجھے 1980ء کی دہائی میں پڑھا ایک واقعہ یاد آگیا۔ پشاور کے ایک خان صاحب اس زمانے میں روس اور اس کی سرپرستی میں متحرک پاکستانی سرخوں سے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو درپیش خطرات کو لیکر بہت زیادہ فکرمند تھے۔ ایک غیر ملکی صحافی نے ان سے انٹرویو میں پوچھا ’ خان صاحب آپ کی تشویش بجا مگر فرض کرتے ہیں کہ پھر بھی روسی سرخے آگئے تو ان سے نمٹنے کے لئےآپ کی حکمت عملی کیا ہوگی؟‘ خان صاحب نے جواب دیا ’ اگر پھر بھی وہ آگئے تو کوئی بات نہیں سرخ جھنڈا ہم بھی اٹھائے گا سیدھا طورخم جا کر روس کو خوش آمدید کہے گا‘۔ صحافی نے مزید پوچھا ’یہاں پہلے سے موجود سرخے تو آپ کو جانتے ہیں کیا وہ اعتراض نہیں کریں گے؟‘ اس پر خان صاحب نے برجستہ جواب دیا ’ ہم ان سرخوں کو ایک بار پھر غدار ثابت کرے گا‘۔

نصف صدی کے عرصے میں دنیا بدل چکی ہے ، طورخم اور چمن سے شوروی فوج نہیں بلکہ خنجراب سے چین کےتجارتی کاروان آ رہے ہیں۔ اب سرخوں سے دین و ایمان کو کوئی خطرہ نہیں ان کو روکنے کے لئے جنگ لڑنے کے بجائے ان کے بڑے ٹرکوں اور ٹرالروں کی آمد و رفت میں آسانی کے لئے سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں ۔ ایسے حالات میں خان صاحب نے اگر چین کے اشتراکی نظام کو پاکستان میں مدنی ریاست کی تشکیل کے لئے موافق قرار دیا ہے تو اس کی مخالفت کرنے والے لازمی طور پر مضبوط ایمان کے لوگ نہیں ہونگے اور ان کی حب الوطنی بھی مشکوک سمجھی جائیگی اس لئے میں بھی مزید اس بات پر خامہ فرسائی سے گریزاں ہوں۔

کمیونسٹ پارٹی کے چئیرمین ماؤزے تنگ چین میں اپنی تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں کمیونزم کا نظام نافذ کرنے کے بعد مغربی سامراج بالخصوص امریکہ سے کوسوں کی دوری پر تھے ۔ نہ صرف اس دوری کو قربت میں بدلنے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ہمیشہ کریڈٹ لتیے رہے بلکہ بھٹو صاحب چین سے اپنی دوستی اور نظریاتی وابستگی کے اظہار کے لئے اکثر و بیشتر ایک خاص طرز کی ماؤ کیپ کہلانے والی پی کیپ بھی پہنتے رہے۔ سرد جنگ کے خاتے کے بعد سوشلزم کو معشیت اور اسلام کو مذہب قرار دینے والی پیپلز پارٹی اب سوشلزم اور اسلام دونوں سے غیر متعلق ہوتی نظر آرہی ہے جس کا ثبوت نوجوان بلاول بھٹو زرداری کو دو حلقوں میں شکست سے ہوتی ہے۔

انڈیا نے تو اپنی آزادی کے ساتھ ہی ملک میں جاگیرداری اور نیم خود مختار چھوٹی چھوٹی ریاستوں سے موروثی حاکمیت کو ختم کر دیا تھا مگر پاکستان میں یہ کام ذوالفقار علی بھٹو نے آزادی کے پچیس سال بعد کیا جس کی وجہ سے سوات، دیر چترال، باجوڑ، ہنزہ ، نگر، پونیال، یاسین ،گوپس ، اشکومن، گلگت، سکردو، روندو، استور، گانچھے اور شگر جیسے علاقوں میں پیپلز پارٹی اور بھٹو ایسے نام بن گئے جو لوگوں سے جدا نہ کئے جا سکے۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو مگر بھٹو کے نواسے کا دیر سے انتخابات ہارنا پیپلز پارٹی کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہیئے جس کی سیاسی، فکری، انتظامی اور منطقی وجوہات کی کھوج لگانا پیپلز پارٹی کی نئی قیادت کے لئے لازم ہے۔

کراچی کی پرانی آبادی غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل ہے جہاں تعلیم، صحت ، رہائش سمیت دیگر شہری سہولتیں ایسی نہیں جو تقسیم برصغیر کے بعد یہاں بسنے والوں کی بستیوں میں ہیں۔کراچی کے پشتنی باشندے نئی بسنے والی مہاجر آبادی سے عددی لحاظ سے کم ہونے کی وجہ سے خود کو معاشی، معاشرتی اور سماجی اعتبار سے غیر محفوظ تو پہلے سے ہی سمجھتے تھے مگر اسی کی دہائی میں اردو بولنے والے مہاجروں کی لسانی بنیادوں پر شروع کی گئی نئی سیاسی ہلچل نے احساس عدم تحفظ کو مزید گہرا کر دیا۔

کراچی کے پشتنی پاشندوں کی بڑی آبادیاں ملیر اور لیاری ہیں جہاں کے لوگ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے۔ ملیر کو ضلع کا درجہ دے کر محترمہ بے نظیربھٹو شہید نے الطاف بھائی کی دشمنی مول لی تھی تو لیاری کے جیالوں کے درمیان اپنی شادی کی عوامی تقریب منعقد کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ لیاری سے بےنظیر بھٹو کے بیٹے کے اپنی سیاسی زندگی کے پہلے الیکشن میں دوسرے نمبر پر بھی نہ آنا پیپلز پارٹی کے لئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایسا کیا ہوا کہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر جانے والے ایک کارکن نےاکسفورڈ کے پڑھے نوجوان بلاول کو شکست دی۔ ایسا کیا ہوا کہ کراچی کی مذہبی سیاست سے ہمیشہ سے دور رہنے والی لیاری کی آبادی نے پیپلز پارٹی کے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو ہیرو ماننے والی مذہبی جماعت پر اعتماد کا اظہار کیا۔
انتخابات میں کامیابی ہی کامیاب سیاست کا ثبوت نہیں مگر لوگوں میں اپنے موقف، حکمت عملی اور نظریے کی پذیرائی کا اعادہ کے لئے لازم ہے کہ انتخابات میں کارکردگی نظر آ جائے۔ آزاد کشمیر، اور گلگت بلتستان میں پانچ سال حکومت کے بعد پیپلز پارٹی کے ناپید ہونے کو مقامی قیادت نے عوام کی موقع پرستی سے تعبیر کیا لیکن لیاری میں بلاول کی شکست پر ایسی تاویل گھڑنا ممکن نہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan