پشتون قوم پرست جماعتیں کیوں ہاریں؟


حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو دوسری ملکی پارٹیوں پر وفاق میں واضح برتری کے بعد وفاق سمیت دو صوبوں خیبر پختونخوا اور پنجاب میں حکومت بنانے کے پوزیشن میں ہے۔ اور درکار نشستوں کو پورا کرنے کے لئے اذاد امیدواروں اور پارٹیوں سے رابطے کر رہی ہے۔ لیکن ان انتخابات کے نتائج ملک کی تقریباً اٹھ سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، پشتونخوا میپ، قومی وطن پارٹی، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے انتخابات کے نتائج مسترد کرتے ہوئے اسے دھاندلی قرار دیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے اسلام آباد میں ال پارٹیز کانفرنس بھی بلائی۔ لیکن وہ اپنی اواز کو کس انداذ سے موثر اٹھا بھی سکیں گے یا نہیں۔ اس کا تھوڑا انتظار کرتے ہیں۔

یہاں ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے قوم پرست جماعتوں اے۔ این۔ پی اور پشتونخوا میپ کے ہارنے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان دونوں کے ہارنے کے وجوہات الگ الگ ہیں۔ پہلے اے۔ این۔ پی کی بات کرتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی 2008 سے 2013 تک وفاق میں پیپلزپارٹی کی اتحادی اور پختونخوا میں حکمران جماعت رہی۔ اور اسی دوران طالبان نےانکا پیچھا کرتے ہوئے رکن صوبائی اسمبلی بشیر بلور اور افتخار حسین کے الکوتے بیٹے سمیت تقریباً 500 کارکن بھی شہید کیے۔

طالبان نے ان کے گھروں، حجروں، جلسوں اور جنازوں کو معاف نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے 18ویں آئینی ترمیم کے ساتھ ساتھ خصوصاً تعلیم پر قابل تعریف کام کیا۔ 2013 کے جنرل الیکشن میں طالبان نے زور پکڑتے ہوئے پورے ملک میں صرف اے۔ این۔ پی کو نشانہ بنایا۔ الیکشن کمپین کے لئے انہیں گھروں میں محصور کیے رکھا۔ اور وہ مجبوراً گھروں سے جلسوں میں ٹیلفونک خطاب کرتے رہے۔ حالانکہ پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر تمام پارٹیاں اسی صوبے اور ملک میں کھلم کھلا اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہیں جس کے نتیجے میں اے۔ این۔ پی کی شکست یقینی تھی۔ اور پی۔ ٹی۔ ائی کو وہاں آسانی سے وہاں حکومت کا موقع مل گیا۔

2013 کے بعد 2018کے انتخابات میں اے۔ این۔ پی کے ساتھ وہی عمل دہرایا گیا۔ وہی طالبان، وہی دھمکیاں، وہی حالات جس کے نتیجے میں شہید بشیر بلور کے بیٹے اور پارٹی کی جانب سےصوبائی اسمبلی کے لیے نامزد امیدوار ہارون بلور کو انتخابی کمپین کے دوران ایک خودکش حملے میں دیگر 60 کے قریب کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ اور اس طرح سے ان کا رستہ روک کر پی۔ ٹی۔ ائی کے لئے طالبان نے جیت کا رستہ مسلسل دوسری مرتبہ ہموار کر دیا ہے۔

اسکے علاوہ اے۔ این۔ پی کے صدر اسفندیار ولی خان نے27 جولائی کو پریس کانفرنس میں فوج اور نگران حکومت پر بھی مبینہ دھاندلی کا الزام لگا چکے ہیں۔ ایسے حالات جنمیں اے۔ این۔ پی کی قیادت خود دہشت گردی کی زد میں ہوں تو انہیں اپنی ہار کا کس طرح ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ اور ذوسری بات وہ یہ کہ 2018 کے انتخابات سے قبل وہ اقتدارمیں تھی ہی نہیں۔ ہاں البتہ کچھ ایسے ایشوز تھے۔ جیسے سی۔ پیک میں پشتونوں کے مفادات کا تحفظ اور پشتون تحفظ موؤمنٹ میں عوام کے توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہوں۔ اس کے علاوہ پارٹی کے اندر کارکنان کی ناراضگی اور اندرونی اختلافات بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ ان کی طرز سیاست پر ان سے ان کے سپورٹرز اور کارکنان کا اختلافات ان کی ناکامی کے وجوہات میں آسکتا ہے۔

جہاں تک پشتونخوا میپ کی بات ہے۔ تو یہ پارٹی تاریخ میں 1990 کے انتخابات کے بعد کامیابی کے بعد پہلی مرتبہ 2013 کے انتخابات میں بلوچستان میں 14 صوبائی سیٹیں، 3 قومی اسمبلی اور تین سینٹ کے نشتوں کے ساتھ نہ صرف بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے اوراہم وزارتیں لینے میں کامیاب ہوگئی۔ بلکہ گورنر بھی ایک طرح سے ان کا اپنا تھا۔ اس کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں کوئٹہ میئرشپ سمیت دیگر اضلاع میں بلدیاتی اقتدار بھی ان کے ہاتھ میں آگیا۔ وفاق میں مسلم لیگ (ن) سے اتحادی پارٹی کی حیثیت سے جڑے رہے۔ عوام کو اس سے بڑی امیدیں تھیں کہ وہ نظریہ کے مطابق بلا امتیاز ان کی خدمت کریں گے۔ لیکن ان چھوٹے موٹے عوامی گلوں شکوؤں سے بالاتر پشتونخوا میپ پر سب سے بڑی تنقید تب کی گئی جب سی۔ پیک میں پشتونوں کو نظر انداز کیا گیا۔ تو پارٹی موقف اس پر واضح طور پر تقسیم ہوتا نظر آیا۔

محمود خان اچکزئی مغربی روٹ کے حق میں آواز اٹھانے کی بجائے مسلم لیگ نواز کے موقف اپنائے ہوئے تھے۔ اور پارٹی کے صوبائی صدر مغربی روٹ کے لئے سینٹ میں صدائے حق بلند کرتے رہے۔ لوگوں کو روزگار کی فراہمی میں ناکامی اس پارٹی کی ناکامی کا ایک سبب بنی۔ اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے۔ جس کے نتیجے میں زیارت، لوالائی سمیت کوئٹہ سمیت دیگر کئی علاقوں میں پارٹی فیصلوں کے برعکس لوگوں نے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑے۔ اور ان کی ووٹ پوری طرح تقسیم ہوگئی۔ اقرباپروری کے الزامات نے ان کے کارکنان کو نالاں کیے رکھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ پارٹی کو مضبوط کرنے بجائے اپنے ہاتھ سے کمزور کر گئے۔ جس کا اعتراف پشتونخوامیپ کے اہم رہنماء نواب ایاز خان جوگیزئی اقتدار کے دوران بار بار جلسوں، اور اخباری بیانات کے ذریعے کرتے رہے۔ گرچہ پارٹی سربراہ اسفندیار ولی خان کیطرح پارٹی کی ناکامی دھاندلی کو قرار دے رہے ہیں۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی تو کوئی شمع جلاتے جاتے

مجموعی طور پر اگر دونوں پارٹیوں کی بات کی جائے تو ملکی حالات اور ان ان کے خلاف چلی سیاسی فضاء اپنی جگہ لیکن حلقوں میں یہ خیال بھی ذور پکڑتا جا رہا ہے کہ ہماری جماعتوں میں ری اینونٹ کی صلاحیت موجود ہی نہیں۔ ان کے پاس قوم کو لیڈ کرنے کی صلاحیت میں انجماد اور وژن کا فقدان ان کی ٹیلنٹ سے روگردانی ہے۔ وہ ایک وژنری کارکن کو آگے لانے سے اپنی روایتی قیادت کوخطرے میں محسوس کررہے ہیں۔ ان کو پاس پاکستان کے آئینی اور ریاستی ڈھانچے میں ایک موثر سیاست کا کوئی خاکہ نہیں ہے۔ پارٹیوں کے عہدوں پر موت تک قابض اپنی سیاست کو قومی سیاست اور مفادات سے اہم سمجھتے ہوئے تحریکوں کو ناکامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اور شاید یہی وہ سوچ ہے۔ جس نے پشتون تحفظ موومنٹ کو جنم دیا۔ جس کے پیچھے لاکھوں پشتون کھڑے ہوگئے۔

لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اور سیاست کو ”قومی“ فریضہ سمجھ دھاندلی کو بنیاد بنا کر اپنی ذمہ داری سے آنکھیں نہ چرائیں۔ خصوصاًپشتونخوا میپ اپنا سیاسی وقار پچھلے اقتدار کی وجہ بڑی حد تک گنوا چکی ہے۔ الیکشن رزلٹ ماننے نہ ماننے کی بجائے پہلے عوام سے معافی مانگیں۔ کیونکہ عوام میں اپنی جگہ بنانا اقتدار سے کہیں بہتر اور سیاسی بقاء کے لئے موثر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).