کراچی ماں ہے ہماری


ہم تو پھول سے تھے آگ سا بنا ڈالا
ہائے اس زمانے نے کیا سے کیا بنا ڈالا
(کراچی کی فریاد)
کراچی ماں بھی ہے محبوب اور بیٹی بھی اگرکراچی کی موجودہ صورتحال کو بیان نہ جائے تو کراچی کے ساتھ زیادتی ہوگی کیوں کہ کراچی اس وقت انتہائی مشکلات میں گھرا ہواہے فخر مشرق، عروس البلاداور شہر قائد کہلانے والاکراچی آج شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہے کراچی سندھ کا دارلحکومت ہے تین دھائی قبل کراچی روشنیوں کا شہر اور امن کا گہوارہ تھا اس کو مرکزیت حاصل تھی کراچی دس بڑے شہروں میں سے ایک ہے یہ بجا طور پر منی پاکستان ہے ملک کے محصولات کا ایک بڑا حصہ یہی شہر فراہم کرتا ہے۔ سمندر کے کنارے آباد کراچی جو ہر صبح سورج کی پہلی کرن کے ہمراہ 2 کروڑ لوگ اپنی پیٹھ پر لادے غروب آفتاب کی سمت بڑھتا ہے۔

پاکستان کا واحد میٹرو پولیٹن شہر، اہم بندرگاہ سب سے بڑا تجارتی و مالیاتی مرکز جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا اب گرہن زدہ ہوچکا ہے کئی دہائیوں سے کراچی کو مہاجروں یعنی اردو بولنے والوں کی آبادی سے جانا جاتا رہا لیکن اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔ کراچی کی 2 کروڑ کی آبادی ہر طبقے، رنگ، نسل، مسلک اور مذہب کے لوگوں پر مشتمل ہے اور کراچی ملک بھر سے آنے والے لوگوں کو روزگار مہیا کرتا ہے۔ کراچی آغوش مادر کی طرح صبح سویرے آنکھ ملتے بیدار ہوجاتا ہے اور ہر ایک کی خدمت کے لئے جت جاتا ہے سب کو ناشتہ کروانا، دوپہر کا کھانا کھلانا، ہر ایک کو ٹرانسپورٹ مہیا کرنا اور شام ڈھلے انہیں گھر تک پہنچانا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 2کروڑ اس کے بچے ہوں اور یہ ان کی ماں اسی لئے اس کی آنکھوں میں سب برابر ہیں یہ سب سے پیار کرتا ہے رزق فراہم کرتا ہے۔ کسی کے ساتھ تفریق نہیں کرتا اپنے ہو یا پرائے ہر ایک کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کی۔ پھر نجانے کیسے ایک ماں کے بچے پٹھان، بلوچ، سندھی، پنجابی کہلانے لگے ساتھ ہی مسلک کی وجہ سے شیعہ، سنی، دیوبند بن گئے۔

نفرت اس قدر بڑھی کہ ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے لگے گذشتہ 02 برسوں سے کراچی کے اندر رہنے والے جن میں علماء دین، سیاست دان، سرکاری افسران، ڈاکٹرز، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکناں، اساتذہ کرام، ادیب، صحافی، دانشور، پولیس اہلکار، وکلاء، سماجی شخصیات اور معصوم افراد میں راہ گیر، مسافر، مزدار طبقہ اور اقلیت کے لوگ شامل ہیں انتہائی بے دردی سے مختلف وجوہات کی بناء پر قتل کردئے گئے۔ 5891ء سے شروع ہونے والی قتل و غارت گری رکنے کا نام نہیں لے رہی بلا تفریق رنگ و نسل ہر ایک کا خون بہایا جا رہا ہے۔

اب میں سماجی و ثقافتی اقدار کا ذکر کروں گی جن کے ذریعے کراچی میں امن اور برداشت کو فروغ دیا جاسکتا ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے کہ کراچی میں ہر مذہب، فرقے، رنگ و نسل اور مسلک کے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی آباد ہیں جن میں ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی اور سکھ بھی موجود ہیں ثقافت کے لفظی معنی کچھ اگانے کے ہیں یہ کسی قوم کی ماضی کی تاریخ و نظریہ کی عکاسی کرتی ہے کراچی میں چاروں صوبوں کے لوگ آباد ہیں جن کی اپنی ثقافت، زباں، رہن سہن، فن مصوری، لباس، تہوار، فن تعمیر، کھیل تماشے، شادی بیاہ کی رسوم، دستکاری، معاشرت سب کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے ماضی میں تمام مذاہب کے لوگ کراچی میں اکھٹے (7491 سے پہلے)رہتے تھے اپنے مذہبی تہوار مناتے تھے ایک دوسرے کی پیدائش و اموات، شادی بیاہ میں سکھ دکھ کے ساتھی بنتے تھے تو آج کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں مسلمانوں کو مذہب اور مسلک کے نام پر قتل کیا جارہا ہے۔

کراچی ایک گلدستہ ہے اور دو کروڑعوام اس کے پھول۔ ہمیں چاہیے کہ ایک دوسرے کو اس کے تہواروں کے کھلی آزادی کے ساتھ منانے دینا چاہیے نہ کہ ان پر تنقید کرنی چاہیے جسے بلوچ ڈے لیاری اور سندھی اجرک ٹوپی سندھ کی ثقافت ہونے کے باوجود بہت کم لوگ مناتے ہیں کیوں کہ مہاجروں کے دل میں یہ تعصب ڈال دیا گیا ہے کہ یہ سندھی کلچرہے اس تعصب، انتشار کو ختم کرکے سندھ کے تمام لوگ یہ تہوار منائیں تو نہ صرف آپس کے تفرقات اور دوریاں مٹ سکتی ہیں بلکہ ہم اس سندھی، پشتو، مہاجر، بلوچی اور اقلیتی فرق کو جڑ سے ختم کر سکتے ہیں انسانیت کا جذبہ پروان چڑھنے سے کراچی پھر روشنیوں کا شہر بن جائے گا انشاء اللہ۔

اسی طرح سبی فیسٹیول فروری کے آخری ہفتے میں بلوچستان میں منایا جاتا ہے، صوفی ازم سندھ و پنجاب کی شان ہیں اس کے علاوہ میلہ چراغاں شالیمار باغ لاہور کے باہر ہر سال لگایا جاتا ہے، کبڈی اور لاہور کے فورس اسٹیڈیم میں ہارس اینڈ کیٹل شو، چترال میں شندور فیسٹیول، کالاش کا اچل تہوار، سوات میں پولو، قراقرم کی ریلی وغیرہ کے بارے میں کراچی کی بڑی اکثریت ان تمام تہواروں کے متعلق نہیں جانتی کراچی میں ان کو پروموٹ کیا جائے تو ان سے متعلق آگاہی کے ساتھ ساتھ سیاحت کو بھی فروغ ملے گا کیوں کہ پاکستاں کے تمام صوبوں کے لوگ ایک دوسرے کے صوبوں میں سیر وسیاحت کے لئے جاتے ہیں اور بیرون ممالک کے لوگ ان ثقافتی میلوں کے شیدائی ہیں اس طرح ہم لوگ ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

ثقافتی میلے واقدار اس ضمن میں بے حد اہم کردارادا کر سکتے ہیں۔ ثقافت مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا بہترین ذریعہ ہے کراچی میں بسے پنجابی جب جشن بہاراں مناتے ہیں تو کراچی میں بسنے والے تمام لوگوں کو اس میں حصہ لینا چاہیے اس دن پیلے رنگ کے لباس زیب تنکیے جاتے ہیں پھولوں کی نمائش کی جاتی ہے اور موسم بہاراں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

اللہ پاکستان اور ہمارے تمام صوبوں میں رہنے والے لوگوں کو اپنے حفظ وا مان میں رکھے اور اور انسانیت کا درد سمجھنے کی توفیق عطا کرے آمین پاکستان زندہ باد پائندہ باد میرے وطن تجھے میری عمر بھی لگ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).