ھمارا کوئی کیپٹن چیلسی سلنبرگر بھی نہیں


یہ پن دراج نوری دو ھزار نو کی ایک برفیلی صبح تھی۔ یو ایس ائیرویز 1569نیویارک ائیر پورٹ سے ساؤتھ کیرولینا کے لئے ایک سو پچپن مسافروں کو لے کر اُڑی ستاون سالہ کیپٹن چیلسی سلنبرگر اپنے فرسٹ آفیسر جیفری سکائلز کو اپنے ائیر فورس کے زمانے ( جب چیلسی برگر ایک فائیٹر پائلٹ ہوا کرتا تھا) کے تجربات سناتا اور جہاز ساؤتھ کیرولینا کی طرف تین ہزار فٹ بلندی پر اُژاتا رہا، اس دوران کینڈا کی طرف سے برفانی پرندوں کا ایک بڑا غول جس تعداد ہزاروں میں تھی۔ اچانک جہاز کے سامنے آیا۔ کیپٹن نے جہاز بچانے کی بہت کوشش کی لیکن پرندوں کا غول جہاز سے ٹکرا گیا، جس کی وجہ سے جہاز کے دونوں انجن کام چھوڑ گئے۔ نیویارک ائیرپورٹ سو کلومیٹر پیچھے رہ گیا تھا، جبکہ آگے والا ٹیٹر بورو ائیرپورٹ کا فاصلہ اس سے بھی دُگنا تھا۔ اب ڈیڑھ سو سے زائد مسافر یا تو اپنی قسمت کے رحم و کرم پر تھے یا کیپٹن چیلسی سیلنبرگر کی ذہانت اور حوصلے پر ان کا دارومدار تھا۔
نیویارک کے ریڈار ٹاور میں تھرتھلی مچ گئی تھی۔ انجینئر اور ٹیک نیشنز ادھر اُدھر بھاگنے لگے تھے۔ جہاز کے اندر بھی سرا سیمگی پھیلنے لگی نوجوان فرسٹ آفیسر جیفری سکائلز نے تجربہ کار اور حوصلہ مند پائلٹ چیلسی برگر کی طرف دیکھ کر ایک غمزدہ بے بسی کے ساتھ کہا سر شائد کوئی اُمید باقی نہیں رہی۔ کیپٹن نے اپنا حوصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا، جیفری گبھرانا نہیں، ابھی میرے پاس چند سیکنڈز ہیں اور میں اس کا فائدہ اُٹھا کر آخری جواء کھیل رہا ہوں۔
جیفری نے فورًا پوچھا سر کیسا جواء ؟
کیپٹن نے اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور مائیک اُٹھا کر مقامی انتظامیہ کو ایک مقام کی نشاندہی کرکے کشتیاں تیار رکھنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ہی جہاز کو دریائے ھڈسن کے اُوپر موڑ دیا۔
چند لمحوں بعد دیوھیکل جہاز کو دریا نے بانہوں میں لے لیا لیکن جہاز ایک سرکش شارک کی مانند قابو نہیں آرہا تھا۔ اس دوران مستعد انتظامیہ کے کمانڈوز اور غوطہ خور ڈیڑھ درجن کشتیاں لے کر جہاز کے دونوں طرف ساتھ ساتھ بھاگتے رہے تقریبًا دو کلومیٹر بھاگنے کے بعد جہاز رُکا اور اپنے آپ کو پانی کے حوالے کرنا شروع کیا تو مستعد امدادی کارکنوں نے جہاز پر ھلہ بول دیا اور مسافروں کو ریسکیو کرنے لگے، ڈیڑھ گھنٹہ بعد آپریشن ختم ہوا تو کسی مسافر کو خراش تک نہیں آئی تھی۔
ساحل پر پورا شھر اُمڈ آیا تھا اور مسافروں کو مبارک بادیں دے رہے تھے، لیکن ایک آدمی سائیڈ پر سگریٹ سلگائے اکیلا کھڑا تھا کسی نے چیخ کر کہا، وہ کیپٹن چیلسی سیلنبرگر ہے اور لوگ ایک دیوتائی عقیدت کے ساتھ اس کی طرف بھاگے۔
جب میں نے یہ کہانی پڑھی تو مجھے اپنا ملک یو ایس ایئرویز 1569 کی مانند لگا کیونکہ منحوس پرندوں کے غول مشرق اور مغرب سے اُڑ کر اس کے انجن پر تو پہلے ہی حملہ آور ہو چکے تھے اب تو کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر مسافروں کو نوچنے تک آگئے ہیں اس جہاز کے مسافر حوصلہ مندی اور بردباری کی بجائے ایک دوسرے کو طعنے دینے لگے ہیں۔
ریسکیو کے لئے کوئی قریبی ائیرپورٹ تو کیا الٹا سرکش اور خونخوار دشمنوں کی بستیاں ہیں، جن کے ہاتھ لگے تو ھماری تکہ بوٹی کر دیں گے۔
جہاز کا کیپٹن چیلسی سیلنبرگر بے فکر سو کر خراٹے کر رہا ہے کوئی مسافر جگانے کی کوشش کرے تو اس کی درگت بنا دیتا ہے۔
سو صورتحال وہی ہے جو یو ایس ایئرویز 1569 کے مسافروں کو درپیش تھی مگر فرق یہ ہے کہ اُنہیں کیپٹن چیلسی سیلنبرگر جیسا حوصلہ مند مخلص اور ماہر پائلٹ میّسر تھا، جبکہ ھم اس نعمت سے محروم ہیں اس لئے ہوا میں ہچکولے کھاتے رہیں گے۔
اور ہاں خبردار اگر کسی نے کیپٹن کو جگانے کی کوشش کی کیونکہ اگر پھر ہڈی پسلی ایک کردی تو ذمہ دار جگانے والا خود ہوگا۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).