تبدیلی آ گئی ہے


25 جولائی 2017ء کے عام انتخابات کی گہما گہمی ختم ہوئی۔ سابقہ روایات کے پیشِ نظر اس مرتبہ بھی ہارنے والوں کی طرف سے دھاندلی کے کافی الزامات لگائے گئے۔ ان الزامات کو یورپی اور دیگر غیر ملکی مبصرین نے بے بنیاد قرار دیا۔ شفاف انتخابات کی گواہی نہ صرف فافن نے بلکہ انڈیا تک کے الیکشن کمیشن نے دی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریکِ انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی۔ مسلم لیگ نون دوسری اور پیپلز پارٹی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر ظاہر ہوئیں۔ بلا شبہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور منفرد الیکشن ہے کیونکہ ماضی میں صرف دو سیاسی پارٹیوں کی باریاں لگی ہوئی تھیں درمیان میں کہیں کہیں آمریت کا تڑکا بھی لگتا رہا۔ الیکشن میں کئی بڑے بڑے سیاسی برج الٹ گئے۔ ایک طرف عمران خان صاحب ملک کے متوقع وزیرِاعظم دکھائی دیے تو دوسری طرف مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، جے یو آؔ ئی کے سربراہان، ایم کیو ایم کی قابلِ ذکر قیادت تک بعض حلقوں سے کامیابی حاصل نہ کر سکے، اسی پر بس نہیں بلکہ بڑی پارٹیوں کے قابلِ ذکر امیدواران جو الیکٹیبلزکہلاتے تھے عوام نے ان کی سیاست کو بھی یکسر مسترد کر دیا۔

انتخابات کے نتائج پر تمام بڑی جماعتوں کا ردعمل سامنے آیا۔ اے پی سی بلا کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ دھاندلی، نتائج کو مسترد کرنے، الیکشن دوبارہ کروانے کے مطالبات پیشکیے گئے۔ حلف نہ اٹھانے کی تجویز بھی پیش کی گئی جس پر اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔ چھوٹے میاں صاحب ایک زیرک سیاستدان ہیں ان کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، امید ہے کہ وہ حلف نہ اٹھانے اور دوبارہ انتخابات کروانے کے مطالبے کا ہر گز ساتھ نہیں دیں گے۔ اس وقت ان کے ووٹر کی آنکھیں میاں صاحب پر لگی ہیں جنھوں نے انھیں منتخب کیا ہے۔ وہ انھیں ملکی سیاست اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ عوامی امنگوں کے مطابق نمائندگی کرتے اور اپنے حق میں آواز اٹھاتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے ووٹر کو مایوس کرنا میاں صاحب کو کسی طور زیب نہیں دیتا۔

دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری اگرچہ کم عمر، نوآموز سیاستدان ہیں اور پہلی دفعہ منتخب ہوئے ہیں، مگر منجھے ہوئے سیاست دان دکھائی دیے۔ انھوں نے سیاسی بالیدگی کا ثبوت دیتے ہوئے اے پی سی میں شرکت سے اجتناب کیا۔ انھوں نے حقائق تک پہنچنے کے لئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے قیام کا عندیہ دیا، مگر ساتھ ہی انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کا اعلان بھی کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ نتائج قبول یا مسترد کرنے کا فیصلہ کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد کرتے۔ بلاول بھٹو صاحب نے بہرحال حلف اٹھانے سے انکار نہیں کیا بلکہ بڑے جذبے سے کہا کہ مرکز میں اپوزیشن میں بیٹھوں گا اور اب میں انھیں بتاؤں گا کہ اپوزیشن کیا ہوتی ہے۔ شاباش بلاول آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ کی تربیت بینظیر بھٹو شہید نے کی ہے اور آپ کی جماعت پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، کیوں نہ ہو آپ کی جماعت نے جمہوریت کی خاطرقربانیوں اور جدوجہد کی ایک طویل داستان رقم کی ہے۔

رہا سوال کہ لیاری کے عوام نے بلاول کا، کراچی اور پنجاب کے بعض حلقوں کے عوام نے چھوٹے میاں صاحب کا ساتھ نہیں دیا تو کوئی بڑی بات نہیں اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ شاید آپ عوام کی وہ سچی خدمت نہیں کر سکے جس کی آپ سے توقع کی جا رہی تھی۔ اس وقت ملک بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ہم قلیل المدتی قرضوں کی واپسی کے قابل بھی نہیں رہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔

ملک اندرونی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ایسے میں ایک اور الیکشن کا مطالبہ بالکل بے محل ہے۔ حلقے کھلوانے اور دوبارہ ووٹوں کی گنتی کا اختیار آپ کو آئین دیتا ہے اور ہر قسم کے تعاون کا یقین عمران خان صاحب نے دلوا دیا ہے۔ وسیع تر ملکی مفاد میں تمام سیاست دانوں سے التماس ہے کہ حلف اٹھائیے۔ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے جمہوری جذبے سے سرشار ہو کر آئندہ پانچ سال حزبِ مخالف کی حیثیت سے اپنا بہترین کردار ادا کیجئے۔

یقین کیجیے ملک و قوم کا بہترین مفاد اسی میں ہے ورنہ عمران خان تو قسمت کا دھنی ہے۔ اگر اللہ نے اسے پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا ہے، اسے پاکستان کا وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے تبدیل نہیں کر سکتی۔ قدرت کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے اور قدرت اپنے فیصلے پر عمل کروانا بھی جانتی ہے۔ تبدیلی آ گئی ہے۔ وزیراعظم تو وہ بن کر ہی رہے گا یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).