جشن آزادی ایسے کیوں نا منائیں؟


اگست یعنی جشن آزادی۔ عید بھلے ہم الگ الگ منائیں، جشن آزادی ہم سب ایک ساتھ مناتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ کہ مفتی منیب الرحمن اور مفتی پوپلزئی بھی اس موقع پر متفق نظر آتے ہیں۔ ’اگست کا چاند‘ نظر آتے ہی زور و شور سے تیاریاں شروع۔ کہیں جھنڈیوں کا انتظام ہو رہا ہے۔ کہیں بچے چاچو کے ساتھ چھت پر چڑھے پرچم لگا رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ شور مچا رہے ہیں ’محلے میں سب سے اونچا جھنڈا ہمارا ہونا چاہیے چاچو‘۔

چلو جی جھنڈا بھی لگ گیا اور جھنڈیاں بھی۔ اب تھوڑی شاپنگ ہو جائے۔ بیج اور کیپ ماموں دلوائیں گے اور ٹی شرٹ امی ابو سے لینی ہے۔ خالہ یا پھپھو سے رِسٹ بینڈ لینا ہے اور سائیکل کے لیے چھوٹا والا پرچم۔ کزنز آپس میں بارٹر سسٹم چلائیں گے۔ ایک دوسرے سے پسندیدہ چیزوں کا تبادلہ ہو گا۔ کہیں کہیں امن و امان کا مسئلہ ہو گا لیکن جلد ہی حل ہو جائے گا۔ آپی اور بھیا بھی کچھ نا کچھ ضرور دیں گے۔ نانا ابو اور دادا ابو سے جو ملے گا وہ بونس۔

اب تو اگست میں خواتین کے ملبوسات کا بھی مقابلہ ہوتا ہے۔ ملک کے مشہور ڈیزائنر برانڈز سبز اور سفید رنگوں میں رنگ جاتے ہیں۔ اکثر جگہ پر تاریخ کی مناسبت سے 14% سیل بھی لگائی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی انہی دو رنگوں کی دھوم ہوتی ہے۔ پروفائل پکچر کے لیے پاکستان کے خوبصورت فریم نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک احساس تفاخر ہوتا ہے۔ اور ایک اظہار تشکر۔ اپنی آزاد سر زمین پر۔ بے پایاں نعمتوں پر۔ بے پناہ رحمتوں پر۔

تیرہ اگست کی رات گویا چاند رات ہوتی ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد گھروں پر چراغاں کرتی ہے۔ سرکاری اور نجی محکموں کی عمارات پر بھی اس کا اہتمام ہوتا ہے۔ بڑی بڑی شاہراہوں اور چوکوں پر جشن کا سماں ہوتا ہے۔ رات 12 بجے کئی جگہ آتش بازی کی جاتی ہے۔ بعض جگہ منچلے ون ویلنگ اور بغیر سایلنسر کے موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ جس سے بچنا چاہیے۔ یہ خود کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے اور دوسروں کے لیے بھی۔

لیکن کئی مرتبہ دل میں خیال آتا ہے کہ کیوں نا اس موقع پر سب ہم آواز ہو جائیں۔ بارہ بجتے ہی جو جہاں ہے وہیں رک جائے۔ اور پوری قوم ایک آواز ہو کر قومی ترانہ پڑھے۔ گائے۔ گاڑیوں میں یہی ترانہ لگا دیا جائے۔ جہاں رہائشی علاقہ نا ہو اور مجمع اکٹھا ہو، وہاں لاؤڈ سپیکر پہ یہی ترانہ لگا ہو۔ کیا خوب منظر ہو گا جب سڑکوں، چوراہوں، پلوں، انڈر پاسز، پارکوں، شاپنگ مالز اور ساحل سمندر غرض ہر جگہ بے ہنگم میوزک کی جگہ قومی ترانہ بج رہا ہو۔

سب قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوں۔ بچے، بڑے، بوڑھے۔ سب یک آواز ہوں، کسی تعصب کے بغیر۔ نا صوبائی عصبیت ہو اور نا ہی سیاسی وابستگی حائل ہو۔ بس سب ایک ہوں۔ ’پاکستانی‘۔ کراچی سے خیبر تک۔ کوئٹہ سے کشمیر تک۔ گوادر سے گلگت تک۔ ایک ہی آواز
پاک سرزمین شادباد

ذرا تصور کیجئے۔ صرف سوچ کر ہی طبیعت سرشار ہو گئی نا؟ معلوم نہیں کہیں اور ایسا ہوتا ہے یا نہیں۔ لیکن ایک بار ہم یہ کر دکھائیں۔ دنیا دیکھ لے۔ کہ یہ ہے نیا پاکستان۔ جذبے سے سرشار۔ توانائی سے بھرپور۔

2018 کو تبدیلی کا سال کہا جا رہا ہے۔ اگر ہم اسی سال سے یہ خوبصورت روایت شروع کر سکیں تو کیا کہنے۔ اگر متفق ہیں تو عمل کیجئے اور شئیر کیجئے۔ 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب، 11 بج کر 59 منٹ 59 سیکنڈ پر تیار رہیئے اور اپنے بچوں کو ایک خوبصورت یادگار کا حصہ بنا لیجیے۔

پاک سر زمین شادباد
کشور حسین شاد باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).