ایم آر ڈی، لہو میں دھمال اور کوک سٹوڈیو کا انقلاب


جمہوریت کی خاطرکوڑے کھانے والے ، بے روزگاری کا عذاب جھیلنے والے ، قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے والے ترقی پسند ساتھی بتا سکتے ہیں کہ ضیاالحق کی آمریت کے دوران جب وہ اقبال بانو کو فیض کا یہ کلام گاتے ہوئے سنتے تھے تو ان پر کیا گزرتی تھی۔خون جوش مارنے لگتا تھا۔سرشاری ،کیف و مستی اور جذب کا عالم طاری ہو جاتا تھا اور یہ یقین پختہ ہو جاتا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت آ کر رہے گی حالانکہ آمریت کی طویل رات کسی کے بھی حوصلے پست کرنے کے لئے کافی تھی مگر اقبال بانو کہتی تھی:

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوح ازل پہ لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہل حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

ہم دیکھیں گے

تو سیاسی کارکن اور جمہوریت پسند عوام ایک نعرہ ء مستانہ بلند کرتے تھے۔ اور ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ جمہوریت کا انتظار کرنے لگتے تھے۔1980کے عشرے کے آخری سالوں میں ہم عوامی جمہوریہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں اپنی مرضی سے اور اپنی مرضی کی جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے ۔روزانہ جب میں بچوں کو اسکول چھوڑ کر واپس آ رہی ہوتی تھی تو گاڑی میں اقبال بانو کی یہی کیسٹ سنتی ہوئی آتی تھی ۔میرے پاس جو کیسٹ تھی اس میں شایدلاہور میں کسی جشن فیض میں یہ کلام ریکارڈ کیا گیا تھا اور سامعین جو لازمی طور پر ترقی پسند ہوں گے کہ نعرہ ہائے تحسین بھی اس میں شامل تھے اور بیجنگ کی سڑک پر کار ڈرائیو کرتے ہوئے جب میں اقبال بانو کو یہ کہتے ہوئے سنتی تھی:

جب ارض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے

ہم اہل صفا مردود حرم ،مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے،سب تخت گرائے جائیں گے

اور پھر شرکا کا تحسین بھرا شورسن کر میرا لہو اپنی گردش میں یہی نعرے بلند کرتا تھااور مجھے لگتا تھا کہ ایک مرتبہ پھر میں کراچی پریس کلب پہنچ گئی ہوں اور منہاج برنا کی قیادت میں نثار عثمانی، حفیظ راقب، احفاظ الرحمن اور دیگرکے ساتھ مل کر آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی ہوں۔شہناز احد ، نزہت صادق، لالہ رخ حسین، نسرین زہرہ، آصفہ، صفیہ رشید، نورجہاں صدیقی، شمیم عالم، الطاف صدیقی اور بہت سے لوگوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے تھے۔

جمہوری حکومتوں کا دور آیا تو ہم بھی پاکستان واپس آگئے لیکن یہاں آ کے بھی جب بھی اقبال بانو کی زبانی فیض کا یہ کلام سنا تو خلق خدا کے راج کرنے کے خواب نے اسی طرح دل کو گرمایا۔ وکلا کی تحریک کے دوران اپنے پرانے نظریاتی ساتھی منیرملک کو یہ کلام پڑھتے سنا بلکہ اس نے کہا بھی کہ اس کے بچوں نے فرمائش کی ہے کہ اپنی تقریر کے دوران وہ فیض کی نظم کی یہ سطریں ضرور پڑھے اور میں اکثر سوچتی تھی کہ کیا میں کبھی اس کلام کے سحر سے نکل پاؤں گی!

چند دن سے جب الیکٹرونک چینلز پر کوک اسٹوڈیو نے عہد حاضر کے بہت سے مشہور گلوکاروں سے فیض کی اس نظم کی ایک ایک سطر گوا کر  ہم دیکھیں گے والا نغمہ پیش کرنا شروع کیا ہے تو عجیب سا محسوس ہو رہا ہے ۔شاید زمانہ آگے نکل گیا ہے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں ۔شاید انقلاب کا تصور بدل گیا ہے۔ اسے سن کر خون میں وہ ابال کیوں نہیں اٹھ رہا۔ اب میرے اندر کوئی دھمال کیوں نہیں ڈال رہا؟شائد میں فیض کی اس نظم کے سحر سے باہر نکل آئی ہوں۔سمجھ نہیں آ رہی کوک اسٹوڈیو کا شکریہ ادا کروں یا شکوہ کروں ،اس نے میری نسل کی اس نظم سے جڑی ہوئی تاریخ اور اس کے انقلابی تصور کو ختم کر دیا لیکن شاید موجودہ نسل کا انقلاب یہی ہے۔ شاید یہ نسل اسی طرح خلق خدا کے راج کے خواب کو تعبیر دینے کی کوشش کرے گی۔۔۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).