مولوی خادم کی تحریک لبیک نے انتخابی نتائج کیسے بدلے؟


انتخابات ہوچکے، نتائج سامنے آچکے،چند ہی دن کی بات ہے جب عمران خان وزیراعظم پاکستان کے منصب جلیلہ پر فائز ہوں گے۔ میرا موقف آج بھی وہی ہے جو گزشتہ پانچ برس میں رہا کہ خامیوں اور بہتری کی گنجائش کے باوجود اس نظام کو چلنے دیا جائے، اس میں رخنہ اندازی نہ کی جائے۔ الیکشن سے متعلق ظاہر کئے گئے تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانی تو عمران خان کروا چکے ہیں اور دانش مندی اسی میں ہے کہ مسلم لیگ ن سمیت تمام ہارنے والوں کی تسلی کے لئے ہر وہ قدم اٹھایا جانا چاہیے جو ممکن ہو ورنہ مزید ستر برس بعد بھی ہماری حالت یہی رہے گی کہ جیتنے والا انتخابات کو شفاف ترین اور ہارنے والابدترین جھرلو قرار دے گا اور دنیا ہمارے حال پر ہنستی رہے گی۔

 مولانا انقلابی عرف شیخ الاسلام طاہر القادری ہر چند ماہ بعد پاکستان تشریف لاتے ہیں لیکن شائد حصہ وصول کر پھر واپس چلے جاتے ہیں،وقت کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں ماڈل ٹاؤن کے شہدا کا درد کم ہوتا جارہا ہے۔ سچ ہے وقت بہت بڑا مرہم ہے۔ چودھری نثار نے عقل مندی کی جو ہارنے کے بعد آٹے دال کا بھاؤ معلوم پڑنے پر چکری واپس لوٹ گئے، لیکن مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی اینڈ کمپنی کا واویلا سمجھ سے باہر ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ ان شخصیات کا مطمع نظر عوام یا ملک کی بھلائی نہیں بلکہ اقتدار اور طاقت کی رسہ کشی میں اپنے حصے کا حصول ہے۔ غلام احمد بلور لائق تحسین ہے جس نے اپنی ہار کو کھلے دل سے قبول کیا۔

سچی بات یہ ہے کہ پاکستانی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں لیکن جب تک یہ الزامات ثابت نہ ہوجائیں ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ یہ بات لیکن تحریک انصاف اور عمران خان کے مفاد میں ہے کہ وہ لاہور میں اپنے مخالف امیدوار خواجہ سعد رفیق سمیت کسی بھی بے قاعدگی کی شکایت کی صورت میں اپنے وعدے کے مطابق اس کی تسلی بخش تحقیقات کروائیں۔ اس سے نہ صرف انتخابی عمل پر چھائے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ جائیں گے بلکہ عمران خان کی ساکھ میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گا۔

الیکشن کے دن صبح سات بجے سے لے کر رات گئے تک انتخابی عمل کے مشاہدے کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چھوٹی موٹی بد نظمی کے سوا دھاندلی یا ٹھپے بازی کہیں دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایک چیز لیکن بری طرح محسوس کی گئی کہ جس بھی پولنگ سٹیشن میں گئے، گیٹ پر کھڑا پولیس اہلکار مسکین صورت بنا کر کہتا” سر جی، ایک منٹ ! میں فوجیوں سے پوچھ  لوں“۔ اسلام آباد سمیت بعض جگہوں پر سیکورٹی پر موجود فوجی اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں کو پولنگ سٹیشن کے اندر کوریج کرنے سے روکنے کی اطلاعات بھی ملیں۔ الیکشن کمیشن کے اجازت نامے کے باوجود صحافیوں کو انتخابی عمل کے مشاہدے اور اس کی عکاسی سے روکنا کسی طور مناسب نہیں تھا۔ خود میرے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا لیکن میں اس کی تفصیلات میں جانا مناسب نہیں سمجھتا۔ میڈیا پر حد سے زیادہ پابندیاں اور روک ٹوک بھی شائد وجہ ہے کہ انتخابات دو ہزار اٹھارہ کے نتائج پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔

انتخابات سے جڑا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ بعض حلقوں میں دوبارہ گنتی(تکنیکی طور پر اسے دوبارہ گنتی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں دوبارہ گنتی سے پہلے دئیے گئے نتائج غیر حتمی اور غیر سرکاری شمار کئے جاتے ہیں) کے دوران تحریک انصاف کے نشستیں کم ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ سیالکوٹ سے پہلی خبر یہ تھی کہ خواجہ آصف کو عثمان ڈار کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے لیکن آخری نتیجہ آنے تک ان کی شکست فتح میں بدل گئی اور دوبارہ گنتی میں ان کے ووٹوں میں اور بھی اضافہ ہوا۔ فیصل آباد سے پہلی خبر یہ تھی کہ رانا ثنا اللہ بھی ڈاکٹر نثار جٹ (جو الیکشن کا بگل بجنے سے پہلے مسلم لیگ ن کے ایم این اے تھے ) کے مقابلے پر ہار گئے ہیں لیکن بعد میں یہ نتیجہ بھی الٹ گیا۔ ابھی عمران خان کو قومی اسمبلی کی چار نشستیں خالی کرنی ہیں اوران میں سے لاہور والی نشست واضح طو ر پر خطرے میں ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق اس نشست سے خواجہ سعد رفیق ریٹرننگ آفیسر کی طرف سے دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد ہونے پر الیکشن ٹربیونل میں جانے کا اعلان کر چکے ہیں۔

ایک خبر یہ بھی ہے کہ اندر کھاتے پیپلزپارٹی حکومت سازی کے معاملے پر مسلم لیگ ن سے مذاکرات کر رہی ہے۔ صدارت اور بعض وزارتیں دیئے جانے پر پیپلزپارٹی حکومت سازی کے لئے مسلم لیگ ن کی حمایت کر سکتی ہے۔ اس صورت میں ایم ایم اے، ایم کیو ایم اور آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر مسلم لیگ حکومت بنا بھی سکتی ہے۔ کوشش کے باوجود اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی، اب وقت ہی اس کی تصدیق یا تردید کرے گا۔

 تمام تر حالات کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان اگر سادہ اکثریت سے بھی حکومت تشکیل دے لیں تو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو چاہئے کہ قومی امور اور ملکی مفادات کے تمام تر معاملات میں وہ تحریک انصاف اور عمران خان کا ساتھ دیں۔ جمہوریت کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے استحکام کو یقینی بنایا جائے اور پارلیمنٹ کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں مستحکم ہوں۔ ٰیاد رہے کہ جمہوریت راتوں رات آنے والا کسی جادوگر کا انقلاب نہیں بلکہ ایک مسلسل اور تدریجی عمل ہے۔ جمہوریت بھی مثل شراب ہے، جوں جو ں پرانی ہو مزا سوا ہوتا ہے۔

میری دعا ہے کہ عمران خان وزیراعظم بنیں تو وہ جنوبی پنجاب صوبہ بھی بنائیں، قوم کے نوجوانوں کوایک کروڑ نوکریاں بھی ملیں، ڈیم بنائیں اور بیرونی قرضوں سے بھی قوم کی جان چھڑائیں۔

 فکر مجھے لیکن اس بات کی کھائے جا رہی ہے کہ آنے والے وقت میں ریاست کو جن حالات کا سامنا ہو سکتا ہے اس کا ادراک کسی کو بھی نہیں۔ اٹھارہ اکتوبر دوہزار سترہ کو شائع ہونے والے اپنے کالم”نجات دستور کی عمل داری میں ہے“ کے اختتام پر خاکسار نے لکھا تھا ”میاں نواز شریف کو آنے والے انتخابات میں فیئر پلے کا موقع مل گیا تو مسلم لیگ ن ایک بار پھر واحد اکثریتی پارٹی بن سکتی ہے۔ سوال لیکن بالادستی کا ہے، این اے ایک سو بیس کا تجربہ بتاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے پیر کاٹنے کے لئے ملی مسلم لیگ اور خادم رضوی کوسنائی نہ دینے والی پکار پر لبیک کا حکم دیا گیا ہے۔ ہر حلقے سے دس بارہ ہزار ووٹ کم ہوں گے تو معلق پارلیمنٹ کے بطن سے ایک اور جمالی کو جنم دیا جاسکے گاجواپنے باس کو بخوبی پہچانتا ہو“۔

بدقسمتی سے میرے دونوں خدشات سچ ثابت ہوئے، یورپی یونین کے مبصرین نے واضح طور پر کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو الیکشن سے پہلے مساوی مواقعے میسر نہ تھے۔ ملی مسلم لیگ اور خادم رضوی کے مالکوں کو مبارکبا د کہ وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب رہے۔

 سرگودھا میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 91 سے حافظ سعید کے بیٹے طلحہ سعید نے 11397ووٹ حاصل کئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 13,57,66,87,102,108,110,114,118,119,131,140,159اور 172کے نتائج پر نظر دوڑائیں تو یہ ہوش اڑانے کے لئے کافی ہے۔ مولوی خادم رضوی کے پیروکاروں نے ان حلقوں میں چار ہزار سے لے کر انچاس ہزار سے زائد تک ووٹ حاصل کئے ہیں۔ ”تحریک لبیک “ کانعرہ مارنے والوں کو ملنے والے ووٹوں کی مجموعی تعداد 21لاکھ 91ہزار بنتی ہے۔ یہ ووٹ اگر مسلم لیگ ن کو ملتے تو اسے چودہ نشستیں زیادہ ملتیں اور شائد وہ پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے کے ساتھ مل کر حکومت بنا لیتی۔ یہی نشستیں اگر تحریک انصاف کو ملتیں تو اس کا دوسری جماعتوں پر انحصار کم ہوجاتا اور وہ نسبتاَ ایک مستحکم حکومت بنا پاتی۔ مستحکم سیاسی حکومتیں لیکن بعض قوتوں کو وارا نہیں کھاتیں۔ ا س صورت حال میں استاد محترم محسن نواز خان نے ایک شریر سا شعر ارزاں کیا ہے۔ پورا شعر لکھ نہیں سکتا تحریف ہی پر گزارا کریں۔

چل چھوڑ دے اسمبلیاں خادم کے ہاتھ میں

حجرے میں اس کے رکھ آ کوئی صدقے کی سری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).