عراق پر امریکی حملے کے پیچھے چھپے اہم راز اور سابق امریکی وزیردفاع ڈک چینی کا اعتراف


سابق امریکی وزیردفاع اور نائب صدر  ڈک چینی کے اپنی کتاب ’اِن مائی ٹائم‘ میں اعترافات

سابق امریکی وزیردفاع اور نائب صدر  ڈک چینی کے اپنی کتاب ’اِن مائی ٹائم‘ میں اعترافات

’ڈک چینی‘ کہلانے والے رچرڈ چینی عراق کی پہلی جنگ کے وقت جارج بش سینئر کی انتظامیہ میں ڈیفنس سیکریرٹری (1993-1989ء) تھے اور امریکی تاریخ کے بدترین دہشتگردی کے واقعہ نائن الیون کے وقت یہ جارج بش جونیئر کی انتظامیہ میں نائب صدر (2001-2009ء) کے عہدے پر فائز تھے۔

اس حوالے سے ان کی یاد داشتیں جو2011ء میں’ In My Time: A Personal and Political Memoir‘کے نام سے شائع ہوئیں بہت اہمیت کی حامل ہیں، کیونکہ یہ مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا کے مستقبل پر اثر انداز ہونے والے ان واقعات میں وائٹ ہاؤس کے اندرون خانہ نقطہ نظر پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ پہلی خلیجی جنگ، نائن الیون حملے کے بعد افغانستان اور پھر عراق پر امریکی حملے میں اپنے فیصلہ کن کردار کا  فخریہ تذکرہ کرتے ہیں۔ کتاب میں کئی جگہ ان کا دعویٰ ہے کہ جارج بش سینئیر اور جارج بش جونیئر ان کی رائے کو فیصلہ کن حد تک اہمیت دیتے تھے۔

اس کے علاوہ اپنی خود نوشت میں اس بات کا اعتراف کرنے میں انہوں نے کسی بخل سے کام نہیں لیا کہ ان تینوں جنگوں میں خصوصاً 1991ء میں پہلی خلیجی جنگ کی منصوبہ بندی کے دوران یہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ میں تھے اور انہوں نے تمام فیصلے صیہونی ریاست کے مفادات کو سامنے رکھ کر کیے۔ ان کی سوانح عمری سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کا تعلق ایک کٹر مذہبی عیسائی گھرانے سے تھا اور ان کی اپنی زندگی میں مذہب کو بہت اہمیت حاصل ہے لیکن اس خود نوشت کا سب سے دلچسپ حصہ پہلی خلیجی جنگ کے حوالے سے ہے جس میں ڈک چینی بتاتے ہیں کہ سعودی حکومت کوعرب سرزمین پر امریکی افواج کی تعیناتی کے لئے راضی کرنے کے لئے وائٹ ہاؤس کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔

ان  کے مطابق’’ سعودی حکومت عراق پر امریکی حملے کے لئے سعودی سر زمین کے استعمال کی تجویز پر ہکا بکا رہ گئی تھی اور فوری طور پر امریکا کو عرب سر زمین پر امریکی افواج اتارنے کی اجازت دینے کے لئے قطعی تیار نہیں تھی، بلکہ ڈک چینی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سعودی سفیراور بعد ازاں سعودی حکومت سے یہ مطالبہ انھوں نے بذات خود اپنی ذاتی قائدانہ اور ڈپلومیٹک صلاحیتوں کا استعمال کرکے منوایا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عراق پر1990ء میں فوج کشی کے لئے صدر بش کو راضی کرنے کا کریڈٹ انہی کو جاتاہے حالانکہ بش کے ذاتی اسٹاف میں سے بعض افراد  اس کے مخالف تھے،فوجیں اتارنے سے پہلے انھوں نے کانگریس سے مشورہ بھی نہیں کیاتھا جبکہ  امریکی عوام اور میڈیا کوبھی مکمل طور پر اندھیرے میں رکھاگیاتھا۔

انھوں نے ایک سے زائد جگہ اس فیصلے  کی وجہ بھی واضح کی ہے کہ اگر صدام حسین کی باگیں نہ کھینچی جاتیں تو وہ اس کی طاقت اسرائیل کے لئے خطرہ بن سکتی تھی۔ وہ یہ تذکرہ بھی کرتے ہیں کہ جنگ سے پیشتر انھوں نے روس سے یہ اطمینان کرنا بھی ضروری سمجھا کہ صدام کے پاس روس کے فراہم کردہ کچھ ایسے ہتھیار تو نہیں جو امریکا کے علم میں نہ ہوں، اس کے جواب میں روس نے انھیں تمام معلومات فراہم کیں۔ سویڈن کی حکومت  بھی جو ماضی میں بغداد میں صدام کی بعض دفاعی تنصیبات کی تعمیرکا حصہ رہی تھی امریکا کو ان پروجیکٹس سے متعلق اپنے کلائنٹ صدام کے تمام اندروں خانہ راز فراہم کیے۔

یاد رہے کہ ڈک چینی کا تعلق ’نیوکنزرویٹوز‘ کہلانے والے امریکی سیاست دانوں کے اس گروہ سے ہے جو اپنے جنگی عزائم سے امریکا کو مسلسل جنگ کی بھٹی میں دھکیلنے کے ذمہ دار گردانے جاتے ہیں۔ ستّر کی دہائی میں ہنری کسنجر اور نائن الیون کی دہائی میں سینئر اور جونیئر بش کے علاوہ، کونڈو لیزا رائس، ڈونالڈ رمسفیلڈ، رچرڈ ہال بروک، پال وولفوٹز، کولن پاول اور کچھ دیگر ریپبلکنز کے نام اس فہرست میں ہیں۔ ڈک چینی کا شمار امریکی تاریخ کے ان چند سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو طویل عرصہ تقریباً چالیس سال تک وائٹ ہاؤس میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے۔

1989ء میں وزیردفاع کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے یہ وائٹ ہاؤس میں چیف آف اسٹاف بھی رہے اور تقریباً دس سال تک ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے امریکی سینٹ میں بھی منتخب ہوتے رہے۔ ایک طویل سیاسی کیریئر کے بعد وائٹ ہاؤس میں ان کے گزرے دنوں کی یادداشتوں کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ ان کی رائے سے کہیں حقائق کی بنیاد پر اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اسے یکسرمسترد نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ یہ ڈک چینی کی عینک سے واقعات کی منظر کشی ہے، جہاں ان کی بات تاریخی حقائق کے منافی نکلی،  وہاں ہم نے حوالوں کے ساتھ تصحیح کی کوشش کی۔

وزیردفاع کی حیثیت سے ان کے دور کے اہم عالمی واقعات میں امریکا کی پانامہ پر فوج کشی، گورباچوف کی پرسٹرویکا اور گلاسنوسٹ کی اصلاحات، گورباچوف کا دورہ امریکا، دیوار برلن کا ٹوٹنا، سوویت یونین کی تحلیل،سرد جنگ کا خاتمہ اور اس کے بعد پہلی خلیجی جنگ ہے جس نے راقم کے نزدیک مشرق وسطیٰ کے مستقبل ہی پر نہیں بلکہ  پورے بحر ہند پرامریکی عسکری بالادستی کے حوالے سے بہت دور رس اثرات مرتب کیے۔

سرد جنگ کے خاتمے پر امریکی حکومت پر عوام کا دباؤ

چینی کا کہنا ہے کہ 1989ء میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی حکومت پر اپنی نیشنل سیکورٹی اسٹریٹیجی کو تبدیل کرنے اور ڈیفنس بجٹ کم کرنے کا دباؤ بہت بڑھ گیا کیونکہ اس سے قبل روسی خطرہ ہی دراصل بھاری دفاعی بجٹ کا جواز تھی۔ چینی کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے سے قبل امریکی عسکری اسٹریٹجسٹ مسلسل اس خطرے سے دو چار رہے کہ روس ایران پر قبضہ کر کے خلیج کے تیل کے ذخائر تک پہنچ سکتا ہے۔ اب یہ خطرہ ختم ہوچکا تھا مگر ’’میں اس رائے سے متفق نہ تھا… جنوری1990ء میں، میں نے جو گائیڈ لائنز جاری کیں اس میں واضح تھا کہ جزیرہ نما عرب اب بھی ہماری اولین ترجیحات میں سے ایک ہے اور ہمیں خلیج میں کسی بھی بحران کے لئے تیار رہنا چاہیے‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدام حسین کے علاوہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ’’میری بات اتنی جلدی صحیح ثابت ہو گی‘‘۔

اسرائیل کو صدام کی دھمکی

کتاب کے مطابق صدام حسین نے1990ء کے موسم بہار میں اسرائیل کو ان الفاظ میں جنگ کی دھمکی دی:’’اگر اسرائیل نے عراق کے خلاف کچھ کیا تو آدھے اسرائیل کو آگ کھا جائے‘‘۔ ڈک چینی کے بیان کے برعکس  یہ الفاظ (اگر واقعی یہ صدام حسین ہی کے ہیں تو بھی) دھمکی کے بجائے ممکنہ اسرائیلی حملے کے خوف کی نشاندہی کرتے ہیں اور ایک بے بس کی بد دعا محسوس ہوتے ہیں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ نو سال قبل 1981ء میں اسرائیل عراق کی ایٹمی تنصیبات پر بلا اشتعال حملہ کرچکا تھا جس کا عراق یا کوئی بھی اسلامی ملک جواب دینے کی جرا ت نہیں کرسکا تھا مگر صفحہ نمبر 182 پر ڈک چینی کے بیان کے مطابق ان الفاظ کی تعبیر کیمیکل وار فئیر کی دھمکی تھی۔

عراق پر مالی دباؤ: کویت پر حملے کا محرک

ایران عراق جنگ کے دوران عراق نے کویت سے کئی بلین ڈالرز قرض لیا تھا۔ عراق کا اصرار تھا کہ کویت کو یہ قرض معاف کردینا چاہیے کیونکہ عراق پورے خطے میں عرب حاکمیت قائم کرنے کے لئے قربانیاں دیتا رہا ہے۔ جولائی 90ء کے آغاز میں صدام اور اس کے نائب وزیراعظم طارق عزیز نے کویت پر کچھ الزامات عائد کئے جس میں عرب امارت کے ساتھ مل کر تیل کی قیمتوں میں کمی سے عراق کو نقصان پہنچانا،عراق اور کویت کا زمینی تنازعہ جس میں رمیلا آئل فیلڈز بھی شامل تھیں سے عراقی تیل کی چوری بھی شامل تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدام حسین تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے مالی دباؤ میں تھے لیکن وہ ہرجانہ حاصل کرنے کے لئے اس حد تک جا سکتے ہیں یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

اسرایلی ڈیفنس منسٹر کا اچانک دورہ پینٹاگان

چینی کا کہنا ہے کہ جولائی کے وسط میں عراقی ٹینک کویت کی طرف بڑھنا شروع ہوئے اور 19 جولائی تک سیٹیلائٹ امیجز کی صورت میں امریکا کو اس بات کے ثبوت مل چکے تھے کہ عراقی فوج کے تین آرمرڈ ڈویژنز کویت کی سرحد کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ عام خیال یہ تھا کہ عراق اپنے مالی مطالبات منوانے کے لئے کویت پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔

چینی کا لکھنا ہے کہ بظاہر کویت ایک بہت چھوٹی سی امارت ہے اور یہ واقعہ امریکی حکومت اور عوام کے لئے کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ چینی کا کہنا ہے کہ ابھی یہ خبر عوام تک بھی نہیں پہنچی تھی کہ 20 جولائی کو انہیں اچانک دو مہمانوں کو پینٹاگون میں خوش آمدید کہنا پڑا جن میں سے ایک اُس وقت کے اسرائیلی وزیردفاع موشے آرین اور اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے چیف آف اسٹاف ایہود بارک (مستقبل کے وزیراعظم ) تھے۔ دونوں مہمانوں نے اپنے بریف کیس سے مجھے ایسے دستاویزی ثبوت اور نقشے پیش کیے جن کے مطابق عراق کا ایٹمی پروگرام انتہائیایڈوانسڈ مراحل میں تھا۔ اسرائیلی وفد کا کہنا تھا:’’عراق کو یورپی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہے جو اسے یورینیم افزودہ کرنے میں مدد دے رہی ہے‘‘، یعنی اسرائیل کے مطابق عراق ایٹمی طاقت بننے ہی والا تھا۔ اسرائیلی وفد کا یہ بھی اصرار تھا کہ عراق کو روکنے کے لئے ہمارے پاس بہت کم وقت ہے۔

چینی کا کہنا ہے کہ میں نے ان دونوں حضرات کی بات کو بہت سنجیدگی سے لیا خصوصا ً اس لئے کہ ان معلومات کے مطابق عراق کا ایٹمی پروگرام ہماری اپنی انٹیلی جنس ایجینسیز کی اطلاعات سے بہت زیادہ ایڈوانسڈ اسٹیج پر تھا۔ چینی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ عراق کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اسرائیلی وفد کی معلومات کی تصدیق جنگ کے بعد ہوگئی۔ (نوٹ: اب یہ بات نہ صرف ثابت ہو چکی ہے کہ ایسا نہیں تھا بلکہ امریکی حکومت کے زعما اب اقرار کر چکے ہیں کہ یہ انٹیلی جنس کی غلط اطلاعات پر مبنی تھا)۔

کویت پر عراق کا کنٹرول

ڈک چینی کا کہنا ہے کہ  مصری صدر حسنی مبارک کا ہمیں یہ پیغام تھا کہ یہ ایک عرب تنازعہ ہے اور ہم اس سے نمٹ لیں گے یعنی امریکی مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور ہماری انٹیلی جنس کی بھی یہی تجویز تھی۔ جنرل شوارز کوپف، امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جومشرق وسطیٰ کے ذمہ دار تھے، نے اگست کی پہلی تاریخ کو اطلاع دی کہ ایسا لگتاہے صدام حسین کویت میں داخل ہو جائے گا اور رمیلا آئل فیلڈ اور دو متنازع جزیروں پر قبضہ کر لے گا۔ اسی رات اطلاع ملی کہ عراقی فوج کویت میں داخل ہوگئیں اور انھوں نے کویت شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ کویت کی اپنی حکومت شہریوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر مزاحمت کئے بغیر راتوں رات  سعودیہ فرار ہو گئی۔

ڈک چینی کے مطابق اگست کی دو تاریخ کو واشنگٹن میں قومی سلامتی کونسل کی میٹنگ طلب کی گئی، میڈیا کا صدر بش سے سوال تھا کیا امریکا ملٹری فورس استعمال کرے گا؟ صدر بش کا جواب تھا:’’ میں ایسے کسی اقدام پر غور نہیں کر رہا‘‘۔ چینی کے مطابق’’ جہاں تک امریکی عوام کا تعلق تھا انھیں امریکا سے چھ ہزار کلومیٹر دور ایک چھوٹی سی ریاست کے امیر کو اس کی حکومت واپس دلانے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ویت نام کی جنگ کے بعد امریکی میڈیا اور عوام کسی بھی بیرونی تنازع میں امریکی مداخلت کے عمومی طور پر خلاف تھے۔ پینٹاگون میں بھی ایسی ہی سوچ کے حامل افسران کا ایک ایسا گروہ موجود تھا جو ویت نام کی بلا جواز جنگ میں عوام سے بولے گئے جھوٹ اور بعد ازاں امریکی افواج کی شکست پرعوام سے شرمندہ تھا‘‘۔ یاد رہے کہ ویت نام جنگ  کے خاتمے سے پہلے1970ء کے عشرے میں پینٹاگون پیپرز کے نام سے امریکی فوجی دستاویزات کے لیک ہونے سے امریکی کانگریس اور عوام سے بولے گئے جھوٹ بے نقاب ہو گئے تھے۔

مگر چینی کا کہناتھا کہ کولن پاول کی مخالفت کے باوجود میں نے فوری طور پر براہ راست آرمی، نیوی اور ایئر فورس کو پلان آف ایکشن بنانے کی ہدایت کی۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ ہم کون سے کیریئرز خلیج بھیج سکتے ہیں، یہاں بظاہر یہ محسوس ہوتاہے کہ چینی صدر بش کے فیصلے سے پہلے ہی خلیج میں امریکی افواج کی تعیناتی کا فیصلہ کرچکے تھے۔ چینی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کے بعد اپنے رائٹنگ پیڈ پر مختلف آپشنز کی لسٹ بنانی شروع کی جس میں صدام کے اقدام کی ڈپلومیٹک مذمت اور معاشی پابندیاں شامل تھیں لیکن ’’میں اس نتیجے پر پہنچا کہ کوئی نان ملٹری آپشن مثبت نتائج نہیں لائے گا‘‘ اور اس صورت حال کا حل ’’امریکی ملٹری طاقت ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر186)

سعودی سرزمین پرامریکی فوج کی تعیناتی کیسے ہوئی؟

چینی کا کہنا ہے کہ تین اگست کو نیشنل سلامتی کونسل کی میٹنگ میں یہ بحث ہوئی کہ اگر فوج خلیج بھیجی جاتی ہے تو اس کو ٹھہرانے اور حملے کے لئے منطقی جگہ سعودی عرب ہے مگر مذہبی وجوہات کی بنا پرسعودیہ اپنی سرزمین پرامریکی موجودگی نہیں چاہے گا اور اسے صرف اسی صورت راضی کیا جاسکتا ہے کہ اسے یہ احساس دلایا جائے کہ ہماری افواج سعودی حفاظت کے لئے ناگزیر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میٹنگ میں صدر بش سمیت باقی زعماء  ایک فیصلے پر شروع سے متفق ہو گئے تھے۔

میٹنگ کے دوران میں ہی سعودی سفیر بندر بن سلطان اور صدر بش کی میٹنگ کا انتظام کیا گیا کہ اسے سعودیہ کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا جاسکے۔ صفحہ نمبر186 (یاد رہے کہ بندر بن سلطان اُس وقت کے سعودی وزیردفاع سلطان بن عبدالعزیز کے بیٹے تھے جو شاہ فہد کے چھوٹے بھائی اور بعد ازاں  اپنی وفات سے قبل ولی عہد بھی رہے)۔ چینی کا کہنا ہے کہ بندرکے صدر بش سمیت امریکی انتظامیہ میں سب سے بہت قریبی تعلقات تھے مگر میٹنگ کے پہلے حصے میں بندر ہمارے منصوبہ پر ہکابکا تھا۔ کتاب کے مطابق سعودی سفیر بندر کو سیٹیلائٹ امیجز دکھائے گئے اور یقین دلایا گیا کہ عراقی فوجیں سعودی سرحد پر جمع ہو رہی ہیں اورامریکا سعودی عرب کے دفاع کے لئے سنجیدہ ہے۔

اس کے بعد چیف آف اسٹاف کولن پاول نے اسے اپنے پورے دفاعی منصوبے سے آگاہ کیا جس میں امریکی فوج کے ڈویژن، ٹینکس، آرٹلری، جہازوں کا پورا لے آؤٹ شامل تھا۔ یہ سب انتظام دیکھ کر بندر آہستہ آہستہ کچھ نرم پڑا۔ اس کا اگلا سوال تھا:’’ ہم کتنی فوج کی بات کر رہے ہیں؟‘‘ ہمارا جواب تھا:’’ ڈیڑھ سے دو لاکھ‘‘۔ بندر اتنی بڑی تعداد سن کرششدر رہ گیا لیکن ہم نے اسے سمجھایا کہ اس قدر فوج کی جلد سے جلد تعیناتی سعودی دفاع کے لئے ضروری ہے ورنہ صدام طاقت پکڑ لے گا اور اگلے مرحلے میں پیش قدمی کرے گا( صفحہ نمبر187)۔ میٹنگ کے آخر میں بندر کا کہنا تھا کہ وہ اسی رات سعودی عرب کے لئے روانہ ہورہا ہے تاکہ شاہ فہد کو یہ فوری پیغام پہنچا سکے اور پلان سے آگاہ کرسکے، اس نے وعدہ کیا کہ وہ افواج کی فوری تعیناتی کی وکالت کرے گا لیکن وہ بالکل پرامید نہیں تھا۔ چاراگست کو قومی سیکورٹی کونسل کا اجلاس پھر کیمپ ڈیوڈ میں بلایا گیا۔ جنرل شووارزکوپف نے بریفنگ دیا کہ کونسی فورسز استعمال کی جائیں گی اور کتنے عرصے کے لئے تعینات کی جائیں گی۔ اس کا کہنا تھا کہ فوج کی تعیناتی میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔

( صفحہ نمبر 189)

چینی کا کہنا ہے کہ کیمپ ڈیوڈ کی میٹنگ میں ہم نے متبادل آپشنز پر بھی غور کیا کہ اگر سعودی امریکی فوج کی تعیناتی کے لئے راضی نہیں ہوتے تو ہماری اسٹریٹیجی کیا ہوگی۔ اسرائیل ہماری فوج کو ٹھہرانے پر راضی تھا لیکن عرب سر زمین پر اسرائیل سے حملہ کرنے کا نہیں سوچا جاسکتا تھا۔بعد ازاں جب صدام نے مسلم دنیا کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے اسرائیل کارڈ کھیلنے کی کوشش کی تو چینی کاکہنا ہے کہ ہم نے بہت مشکل سے اسرائیل کو جواب دینے سے روکا کیونکہ اسرائیل کے میدان میں اترنے سے مسلم دنیا کی حمایت صدام کے حق میں ہو جاتی اور امریکا کے لئے مشکلات پیدا ہوتیں۔ ترکی ایک اور آپشن تھا جہاں اس وقت امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود تھا مگر اس کا کویت اورعراق سے فاصلہ بمبار طیاروں کی ری فیولنگ سمیت مختلف لاجسٹک مسائل کو جنم دے سکتا تھا۔ چینی کے مطابق کیمپ ڈیوڈ کی میٹنگ میں امریکی انتظامیہ شک کا شکار تھی کہ سعودیہ اس منصوبہ پر مشکل ہی راضی ہوگا۔ میٹنگ کے اختتام پر صدر بش نے شاہ فہد کو فون ملایا اور ان سے براہ راست بات کی لیکن بات بنی نہیں۔ (صفحہ نمبر 188)

چند گھنٹوں بعد طے پایا کہ ایک اعلیٰ درجہ کا وفد سعودیہ بھیجنے کی ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کے مشیرسکوکروفٹ کا کہنا تھا کہ وہ چیف آف اسٹاف کولن پاول کے ساتھ سعودیہ جائے گا لیکن چینی نے اس وفد کی قیادت کا فیصلہ کیا:’’فوجوں کی تعیناتی میری ذمہ داری ہے اس لئے اس وفد کی قیادت میں کروں گا‘‘۔ یہ بات بظاہر مشکل نظر آتی تھی کہ وزیردفاع بذات خود سعودیہ جائے اور اسے مایوس لوٹنا پڑے(صفحہ نمبر188)۔ پروٹوکول کے مطابق اگلے مرحلے میں یہ دیکھنا تھا کہ سعودی اس اعلیٰ درجہ کے وفد کو خوش آمدید کہنے کے لئے راضی بھی ہیں یا نہیں۔ چینی کا کہنا ہے کہ ’’نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر سکو کروفٹ پوری دوپہر اور رات فون پر لگا رہا‘‘۔ بالآخر دوسرے دن دوپہر تک سعودی راضی ہو گئے۔ (صفحہ188 )

چینی کے مطابق وہ پانچ اگست کو سعودی عرب کی طرف چل پڑے،ان کے جہاز کی روانگی سے پہلے صدر بش اعلان کرچکے تھے کہ ’’ہم (امریکا) صدام کی جارحیت برداشت نہیں کریں گے‘‘۔ یہ ایک طرح سے سعودی حکومت پر بلا واسطہ دباؤ تھا کہ امریکا فیصلہ کرچکا ہے۔ چینی جہاز میں شاہ فہد سے ملاقات کے لئے پریزنٹیشن کی تیاری کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ہمیں صدام کو جارحیت کی اجازت نہیں دینی چاہیے ورنہ وہ مضبوط ہوتا جائے گا۔ خصوصاً اگر اسے کویت کی دولت مل گئی تو وہ خلیج پر غالب آ جائے گا، وہ اوپیک پر غالب آ جائے گا، وہ مزید مہلک ہتھیار حاصل کرے گا، جس سے وہ پورے خطے پر غالب آ جائے گا ۔ ہمیں کسی نہ کسی موقع پر اسے روکنا ہو گا، ابھی یہ کام بہت آسان ہے خصوصاً اس لئے کہ امریکا اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے عالمی اتحاد تشکیل دے رہاہے۔

چینی کا کہنا ہے کہ سعودیہ میں متعین امریکی سفیر چارلس فریمین جہاز میں اس کے ساتھ تھا جس کا کہنا تھا کہ شاہ فہد سے بہت محتاط رہ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ذرا سا بھی جارحانہ انداز اختیار کیا گیا یا انھیں اتنی بڑی فوج کا عندیہ دیا گیا تو وہ ڈر کر پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپ کو ذہنی طور پر انتظار کے لئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ سعودی جلدی میں فیصلہ کرنے کے عادی نہیں ہیں خصوصاً اتنا اہم فیصلہ۔( صفحہ نمبر189) وفد دن کے دو بجے جدہ میں اتراتو سعودی سفیر بندر استقبال کے لئے ائیرپورٹ پر موجود تھا۔ چارلس کے مشورے کے برعکس اس کا کہنا تھا کہ آپ شاہ فہد سے براہ راست سیدھی بات کریں۔ اس کا کہنا تھا کہ آپ صرف شاہ پر یہ واضح کریں کہ آپ سنجیدہ ہیں۔ میں نے بندر کا مشورے پر عمل کرنا مناسب محسوس کیا۔

شاہ فہد کے ساتھ ولی عہد عبداللہ، نائب وزیردفاع  عبدالرحمان موجود تھے۔ وزیردفاع سلطان بن عبدالعزیز یعنی بندر کا باپ، اور فہد کا سگا چھوٹا بھائی ملک سے باہر تھا۔ شاہ کو صدام کے خطرے سے آگاہ کیا اور یہ بھی کہ امریکا سعودی دفاع کے لئے بہت سنجیدہ ہے۔ انھیں بتایا گیا کہ صدر بش ذاتی طور پر صدام کے خلاف معاشی، سفارتی اور فوجی اقدام کے لئے عالمی یکجہتی اور حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اسکے ساتھ ہی ساتھ ہمیں سعودی عرب پر حملے کو روکنا ہے۔ اس کے لئے ملٹری ڈٹرینس (طاقت کا توازن ) بہت ضروری ہے۔ صدام کو معاشی اقدامات تنگ کر رہے ہیں، اور وہ جھنجھلا کر وار کرسکتا ہے۔ جنرل شوارزکوفپ نے انہیں بتایا کہ صدام ایک یا دو دن کے عرصے میں بھی سعودیہ پر حملہ کی تیاری کر سکتا ہے۔

چینی کے مطابق میٹنگ کے اختتام پر میں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکی فوج صرف اس وقت تک سعودیہ میں رکے گی جب تک سعودی چاہیں، جب وہ خواہش کریں گے امریکی فوج سعودی سر زمین چھوڑ دے گی۔ میں نے جلد اقدام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اگر ہم صدام کی کسی عملی جارحیت کا انتظار کریں گے تو بہت دیر ہو چکی ہوگی( صفہ نمبر191) ۔ چینی کا کہنا ہے کہ اس گفتگو کے بعد سعودی زعماء  نے عربی میں گفتگو شروع کر دی، بندر نے ترجمانی بھی بند کر دی۔ چینی کو بعد میں پتہ چلا کہ وہ یہ بحث کر رہے تھے کہ اتنی جلدی کیا ہے، ابھی انتظار کیا جا سکتا ہے۔ شاہ فہد نے یہ کہہ کر بحث ختم کی کہ کویتیوں نے انتظار کیا تھا اور آج وہ ہمارے ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور امریکا کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ چینی کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہ جانتے تھے ان کا فیصلہ متنازعہ ہے مگر انھوں نے اپنا وزن امریکا کے پلڑے میں ڈالا۔

یہ بھی امریکا کی خوش نصیبی تھی کہ اس وقت مملکت پر سدیری خاندان کا فرد حاکم اعلیٰ تھا جن کا رویہ شروع سے امریکہ کی جانب لچکدار تھا۔ شاہ فہد 60ء کے عشرے میں امریکا کا دورہ کرنے والے اولین شہزادوں میں سے تھے جنہوں نے1969ء میں صدر نکسن سے ملاقات کی تو انہیں اس وقت پینٹاگون اور ناسا کا دورہ کروایا گیا۔ راقم کے تجزیہ کے مطابق امریکا انہیں مستقبل کے دیرینہ پارٹنر کے طور پر تیار کروا رہا تھا۔ یاد رہے کہ یہ شاہ فیصل کا دور تھا اور شاہ خالد اس وقت ولی عہد تھے۔ خلیج کی پہلی جنگ کے دوران شاہ فہد کی لیڈی ڈیانا کے ساتھ تصویر بہت سے قارئین کو یاد ہوگی جس میں وہ برطانوی ولی عہد کی شریک حیات کو ہیروں کا سیٹ پیش کر رہے ہیں۔

اپنی رہائش پر پہنچ کر میں نے صدر بش کو سعودی فیصلے سے آگاہ کیا اور فوجوں کی تعیناتی کے لئے رسمی اجازت لی۔ اس وقت برطانوی وزیر اعظم مسز تھیچر خلیج کی جنگ پر مشاورت کے لئے صدر بش کے ساتھ تھیں۔ چند گھنٹوں کے اندر ہی امریکی طیارے ایف۔15 لینگلے ایئربیس سے عرب سر زمین کے لئے روانہ ہونا شروع ہوگئے۔ اس کے علاوہ ایئر کرافٹ کیریئر یو ایس ایس آئزن ہاور سوئز کنال کی طرف اور یو ایس ایس انڈیپنڈنس خلیج عدن کے لئے روانہ ہوگئی۔ ایک ہفتے کے اندر اندر افواج  عرب سر زمین پر اترنا شروع ہوگئیں۔ یاد رہے کہ جس وقت یہ سب کچھ ہورہا تھا دنیا، امریکی میڈیا، امریکی عوام یہاں تک کہ امریکی کانگریس یعنی امریکی عوام کے منتخب نمائندوں کو بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ امریکی کانگریس سے منظوری کا تو سوال ہی نہیں اٹھایا گیا۔ اس سے امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ بھی بے نقاب ہوتا ہے۔

چینی کا کہنا ہے کہ دوسرے دن وزیردفاع سلطان بن عبدالعزیز نے مجھ سے ملاقات کی تو دو چیزوں کی یقین دہانی چاہی۔ ایک تو یہ کہ دنیا کو یہ پتہ چلنا چاہیے امریکی افواج سعودی دعوت پرآئی ہیں۔ دوسرے یہ کہ جب تک افواج کی تعیناتی ہو نہیں جاتی اسے راز رکھا جائے گا۔ اس یقین دہانی کی ضرورت سعودی وزیردفاع کو کیوں پیش آئی اسکا اندازہ مشکل نہیں۔ عالم اسلام اور خود سعودی علماء کے کسی ممکنہ ردعمل کا خوف یقیناً امریکی دوستی کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بدرجہ اتم موجود ہوگا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اسامہ بن لادن کا امریکیوں سے پہلا اختلاف خلیج میں امریکی فوج کی تعیناتی پر ہی تھا۔

عراق میں موجود امریکی سفیر کا کردار

ڈک چینی وسط جولائی سے لیکر جنوری تک، امریکی حملے اور اسکے بعد کی تمام تفصیلات انتہائی تفصیل سے بیان کرتے ہیں لیکن عراق میں موجود امریکی سفیر کے کردار کا تذکرہ بھول جاتے ہیں۔ وہ اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ 26 جولائی کو (کویت پر قبضے سے چھ دن قبل )عراق میں موجود امریکی سفیر اپریل گلیسپی نے صدام حسین سے ملاقات میں انہیں کویت کے ساتھ اپنے تنازعات حل کرنے کے لئے کسی بھی آپشن کو اختیار کرنے کا گرین سگنل دیا کہ کویت سے عراق کا تنازع، عربوں کے مابین ایک تنازع ہے جس سے امریکا کا کوئی تعلق نہیں اور صدر بش عراق سیبہت گہرے اور وسیع تعلقات چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سوانح عمری کے سولہ میں سے دو باب1991ء میں عراق پر حملے سے متعلق ہیں لیکن کہیں بھی عراق میں امریکی سفیر کا ذکر موجود نہیں۔ اپریل2008ء میں معروف امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق وائٹ ہاؤس کوموصول اس میٹنگ کی روداد کے کیبل اب کلاسیفائیڈ نہیں رہے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکا، یورپ اور بھارت سمیت بہت سے ممالک میں ’فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ‘ کے تحت میڈیا، تحقیق نگاروں بلکہ ایک عام آدمی کو بھی سرکاری ریکارڈز تک محض ایک درخواست کے عوض رسائی حاصل ہوتی ہے۔ ایک محقق کی درخواست پر گلیسپی کے ڈی کلاسیفائیڈ کیبل کے مطابق انھوں نے صدام کو صدر بش کا پیغام پہنچایا کہ عراق سے تعلقات کو وسیع اور گہرا کیا جائے جس کے جواب میں صدام حسین نے صدر بش کو گرم جوشی سے نیک خواہشات بھجوائی تھیں۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق جولائی میں اگر صدام پر یہ ظاہر کر دیا جاتا کہ امریکا اس معاملے سے لاتعلق نہیں رہے گا تو اسے کویت پر حملے سے روکا جا سکتا تھا۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مذکورہ مضمون کے مطابق گلیسپی امریکی حکومت کی پالیسی پر عمل کر رہی تھیں کہ صدام کو یقین دلایا جائے، اگر وہ کویت پر حملہ کرتے ہیں تو امریکا کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ گلیسپی اس معاملے پر بہت عرصہ تک خاموش رہیں لیکن مارچ 2008ء میں ایک لبنانی اخبار کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس کی ذمہ داری قبول کرنے میں کوئی ندامت نہیں۔ ڈک چینی کے اپنے بیان کے مطابق انہوں نے جنگ سے قبل صدام سے بات چیت اور مذاکرات کی مسلسل مخالفت کی۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جیمز بیکر اور طارق عزیز کی جنیوا میں ملاقات کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ مجھے اندیشہ تھا اگر صدام مان گیا تو کیا ہماری فوجیں ایسی ہی بیٹھی رہیں گی۔ پھر بھی جنوری 1991ء میں عراقی فوج پر امریکی حملے سے قبل کانگریس سے رسمی منظوری لی گئی۔

جس پیمانے پر فضائی جنگ لڑی گئی اور اوپر سے بم برسائے گئے، اسے دیکھ کر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر فضائی طاقت ہی استعمال کرنا تھی تو اتنے بڑے پیمانے پر امریکی فوج کی تعیناتی کی کیا ضرورت تھی۔ دلچسپ صورت حال اُس وقت پیش آئی جب جنگ سے قبل امریکی ایئر فورس کے چیف مارک ڈگن نے صحافیوں سے اپنی بات چیت کے دوران اس بات کا اظہار کردیا کہ ہمارا زمینی جنگ لڑنے کا کوئی ارادہ نہیںکیونکہ امریکی عوام جنگ کو صرف اس وقت تک برداشت کریں گے جب تک انھیں باڈی بیگس (امریکی فوجیوں کی لاشیں) نہ ملیں۔ مارک ڈگن کو صحافیوں سے اس بے تکلفی کی سزا جنگ سے پہلے اپنی ملازمت سے فراغت کی صورت میں دینی پڑی۔ یاد رہے کہ (کتاب کے مطابق) عراقی فوج کے خلاف زمینی کاروائی میں مصری اور سعودی فوجوں ہی کوآگے کیا گیا تھا۔

چینی نے یہ بھی واضح کیا کہ ویت نام کے تجربے کے بعد وہ میڈیا کو آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت نہیں دے سکتے تھے کیونکہ اس سے امریکی فوج کا مورال گرتا ہے اور عسکری فیصلہ کرنے والے عوامی دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ میڈیا پرسنز خود پینٹاگون نے منتخب کیے۔ سعودی حکومت نے آزاد صحافیوں کو جنگ کی رپورٹنگ کے لئے ویزے جاری نہیں کیے۔

اسکے علاوہ جن باتوں کا تذکرہ ڈک چینی بالکل فراموش کرگئے اس میں سرد جنگ کے خاتمے میں افغان مجاہدین اور پاکستان کا کردار اور سعودی عرب میں پاکستانی افواج کی تعیناتی بھی شامل ہے۔ کتاب میں بار بار صدام کے کیمیائی ہتھیاروں کا تذکرہ ہے جس کی حقیقت اب سامنے آ چکی ہے۔ کتاب میں واقعات کا ایک بہت ہی سادہ ورژن پیش کیا گیا ہے کہ صدام کے پاس کیمیائی ہتھیار تھے، وہ جارح تھا، کویت اور پھر سعودی عرب کی دولت ساتھ آنے کے بعد اسے خطے میں بد امنی کے خطیر وسائل میسر آجاتے جو اسرائیل کے لئے بھی بہت بڑا خطرہ تھے۔

ایک بہت اہم سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے کہ اتنی جلدی فوجوں کی تعیناتی کیسے ممکن ہوئی؟ چینی کے اپنے بیانات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی رسمی اجازت سے پہلے ہی نیوکلیئرپاورڈ یو ایس ایس آئزن ہاور سوئز کنال کے لئے روانہ ہو چکا تھا۔ ڈیڑھ سے دو لاکھ فوج پہلے سے تیار تھی جو ایک ہفتے کے اندر اندر امریکا سے جزیرہ نما عرب کے لئے روانہ ہوگئی۔ یاد رہے کہ اسرائیل 1981ء میں عراق کے نیوکلیئر پلانٹ کو فضائی بمباری کرکے تباہ کرچکا تھا۔1990ء میں اسرائیل عراقسے ویسا ہی خطرہ محسوس کرتا تھا جیسا آج ایران سے کر رہا ہے۔

اس کتاب کو پڑھ کر یہ تاثر بھی مضبوط ہوتا ہے، جیسا کہعام طور پرسمجھا جاتا ہے کہ امریکی حکومت کے عہدیدار سیکولر مائنڈڈ ہیں اور مذہب کا فیصلوں میں عمل دخل نہیں ہوتا لیکن وائٹ ہاؤس کے عہدے داروں بیانات سے خصوصاً نیو کنزرویٹوز کے طور پر معروف عہدے داروں کے بیانات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی مذہب سے وابستگی خاصی گہری ہے۔ خود ڈک چینی کتاب میں متعدد مقامات پرمذہب سے اپنی دلچسپی کے حوالے دیتے ہیں۔ انہوں نے امریکی فوجوں کو پیغمبروں سے تشبیہ دی ہے جو خدا کا کام کرنے کے لئے زمین  پر اترتے ہیں۔ اپنی نائب صدارت  کے حلف کے بارے میں ڈک چینیبتاتے ہیں کہ اس اہم موقع کے لئے اپنے دادا کی بائبل کا انتخاب کیا جو حجم اور وزن میں اتنی بڑی تھی کہ حلف سے پہلے میری بیگم کی گود میں دیکھ کر مسز جونیئر بش اس کا نوٹس لئے بغیر نہ رہ سکیں۔

چینی کی زندگی کا ایک اہم پہلو جس کا ذکر اہم معلوم ہوتا ہے کہ خود ڈک چینی نے نوجوانی کے دور میں ڈرافٹ یعنی امریکی فوج میں اپنی جبری بھرتی کے خلاف پانچ دفعہ اپیل کی اور ہر دفعہ خوش قسمتی سے ان کی در خواست منظور کر لی گئی اور اس طرح امریکی افواج کی عظمت کے گیت گانے والا اور انہیں پیغمبر گرداننے والے مذہبی خیالات کے حامل چینی خود کبھی ایک فوجی کی حیثیت سے جنگ میں شریک نہیں ہوئے، یاد رہے کہ ڈک امریکی تاریخ کہ سب سے نامقبول نائب صدر ہیں۔ ان کے دور میں امریکی عوام میں ان کی مقبولیت سروے کے مطابق صرف 13 فیصد تھی۔

یہ کتاب طویل عرصے تک امریکی حکومت کا حصہ رہنے والے اعلیٰ ترین عہدیدار کی لکھی ہوئی ہے۔ اس میں موجود حقائق کو کانسپا ئیریسی تھیوری قرار دے کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یہ کتاب پاکستان یا مسلم دنیا کے قارئین کو ذہن میں رکھ کر نہیں لکھی گئی۔ اس کتاب کے مطلوب قاری امریکی عوام بلکہ اس سے بھی زیادہ امریکی سیاست دانوں کو کھلے دل سے مالی امداد دینے والی لابیاں ہے، جنھیںقدم قدم پر جتایا گیاہے کہ ان کے مفادات کا تحفظ مصنف نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ اسی حقیقت کے اظہار میں چینی نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ ان کتابوں کا تجزیہ کرنا ہمارے بین الاقوامی تعلقات کے پالیسی سازوںکے لئے انتہائی اہم ہے۔

راقم کے نزدیک ان یادداشتوں کا سب سے قابل ذکر واقعہ سن 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے نوماہ بعد پوپ جان پال سے ڈک چینی کی ویٹیکن میں ملاقات ہے۔ واضح رہے کہ پوپ جان پال اقوام متحدہ، یورپی اور امریکی عوام کی اکثریت کی طرح عراق پر امریکی حملے کے بظاہرمخالف تھے۔ ڈک چینی کا کہنا ہے کہ ملاقات کے بعد باقی لوگوں کے کمرے سے باہر جانے کے بعد پوپ نے میرے دونوں ہاتھ تھام لئے اور کہاکہ ’’خدا امریکا پر اپنی رحمت نازل کرے‘‘۔

بشکریہ؛ ایکسپریس نیوز

تحریر؛ تزئین حسن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).