عمران کے افغانستان بارے خیالات پر افغان خوش لیکن نفاذ کیسے ہو گا؟


انتخابات کے ایک دن بعد وکٹری خطاب میں عمران خان نے پڑوسی افغانستان کے ساتھ کھلی سرحدوںکی خواہش کا اظہار کیا جس کا افغانستان میں زبردست خیرمقدم کیا گیا لیکن اکثریت افغان نے کپتان کے اس اعلان پراس لئے سوالات اٹھائے ہیں کہ ان کے بقول پاکستان میں سیاسی قیادت کے پاس افغانستان کے ساتھ اہم معاملات طے کرنے کا تو اختیار ہی نہیں ہوتا تو وہ کیسے یہ کام کر سکے گا۔ لیکن وہ نا امید نہیں اور عمران کے اس وعدے اور افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لئے ان کے نیک خواہشات کی تکمیل کا انتظار کریں گے۔ افغان صدر اشرف غنی نے عمران خان کے ساتھ فون پر گفتگو کے بعد ٹویٹر پر کہا کہ دونوں نے ماضی کو پس پشت ڈالنے اور پاکستان اور افغانستان کے سیاسی، سماجی اوراقتصادی طور پر ایک خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھنے پر متفق ہوئے ہیں۔

عمران نے قوم سے خطاب میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ افغانستان اور دیگر پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آئیں گے؟ نواز شریف نے بھی2013 کے انتخابات میں پی ٹی ائی کی موجودہ اکثریت سے بڑا مینڈیٹ جیتنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ پڑوسیوں بالخصوص افغانستان اور بھارت کے ساتھ اچھے ہمسائیگی والے تعلقات قائم کیے جائیں گے لیکن ان کے دور حکومت میں پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کی جو حالت تھی وہ سب کے سامنے ہے۔ اب عمران کا ا متحان ہوگا کہ کیا وہ ایک ازاد خارجہ پالیسی بنا سکیں گے اور معاملات پارلیمنٹ میں لے جا سکیں گے؟ عمران کے لئے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے اس وقت ماحول اس لئے سازگار ہے کہ پاکستان اور افغانستان دوطرفہ مذاکرات کے ایک جامع نظام پر متفق ہونے کے بعد اس وقت بد اعتمادی دور کرنے کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

ایک اہم تبدیلی یہ بھی ہوئی ہے کہ طالبان نے قطر میں اعلی امریکی سفارتکاروں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے ہیں۔ طالبان کے ایک اہلکار  نے ”ہم سب“ کو بتایا کہ 23 جولائی کو ان کے قطر میں سیاسی نمائندوں نے امریکی نائب وزیر خارجہ ایلز ویلز کے ساتھ ملاقات کی جو ان کے بقول ملاقات کی فضا بہت اچھا اور بات چیت میں مفید تجاویز کا تبادلہ ہوا۔ افغانستان میں امن مذاکرات نہ ہونا بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان بد اعتمادی کا ایک سبب تھا کیونکہ کابل کو یقین تھا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کا اصرار ہے کہ امن مذاکرات تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اب جبکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور امریکی طالبان کے ساتھ امنے سامنے بیٹھ گئے ہیں تو عمران کے لئے تو ماحول کافی حد تک سازگار ہے لیکن افغانستان کے ساتھ معاملات بہت پیچیدہ ہیں اور دیکھنا ہے کہ عمران کس طرح خارجہ تعلقات میں اپنی حکومت کے لئے اختیارت حاصل کر سکیں گے۔

اب جبکہ عمران نے افغانستان کے ساتھ یورپی یونین کی طرح آزاد سرحد بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تو افغان اب اس انتظار میں ہیں کہ اس کام کو کب عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ افغانوں کی ہر وقت پاکستانی سیاسی قیادت سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور جب بھی کابل جانے کا موقع ملتا ہے تو افغانوں سے یہ ضرور سنتے ہیں کہ انہیں پاکستانی کی سیاسی حکومتوں سے کبھی شکایت نہیں رہی۔ اب ان کی عمران سے توقعات اس لئے زیادہ ہوں گی کیونکہ اس کی وکٹری تقریر میں افغانستان کا ذکر کیا اور افغان ازاد سرحد بنانے کی خواہش کو سراہا ہے۔ افغان قومی اسمبلی کی خاتون رکن ہیلی ارشاد نے عمران خان کے بیان پر رد عمل میں کابل سے اڈیو پیغام میں ”ہم سب“ کو بتایا کہ اگر پاکستان کے اداروں کی سوچ میں افغانستان سے متعلق تبدیلی ائی ہے تو معاملات اگے بڑھ سکتے ہیں اور اگر اب بھی معاملات صرف بیانات تک ہیں توپیش رفت نہیں ہوگی۔

عمران کا افغانستان کے ساتھ ازاد سرحد کی حمایت ایسے وقت میں کی گئی ہے جب سیکیورٹی فورسز افغانستان کے ساتھ سرحد پر تیزی سے باڑ لگا رہی ہیں۔ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ 55 ارب روپے کی لاگت سے 2019 میں مکمل کیا جائے گا۔ منصوبے کے مطابق 2300 کلومیٹر سے زائد سرحد پر باڑ لگئی جائے گی۔ خیبرپختونخوا میں شامل قبائلی علاقوں کے علاوہ بلوچستان میں بھی باڑ لگانے کا کام جاری ہے۔ پاکستان نے 2016 جولائی سے تورخم سے پاکستان میں داخل ہونے والے ہر افغان کے لئے پاسپورٹ اور ویزہ لازم قرار دیا تھا۔ پاکستان حکام کا اصرار ہے کہ سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے تورخم کراسنگ پر نیا نظام متعارف کرایا ہے تاکہ غیر قانونی امدورفت اور شدت پسندوں کی نقل وحرکت کو روکا جاسکے۔ اس سال دو مرتبہ پاک افغان سرحد پر باڑ دیکھنے کا موقع ملا اور وہاں فوجی حکام کا کہنا تھا کہ باڑ لگانے کا کام ہر حال میں مکمل کیا جائے گا اور اب یہ کبھی بھی کھلی سرحد نہیں رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).