ٹی وی کے فلمی اشتہارات اور پوسٹ کارڈ


پاکستان ٹیوی کے شروع والے دور میں اشتہاروں پر بھی بہت محنت کی جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے اشتہار بھی گانوں کی طرح لوگ گنگنایا کرتے تھے۔ پہلی بات کہ چینل ہی ایک تھا اس لئے یہاں سے نشر ہونے والی بات ایک دم ہی چہار سو پھیل جایا کرتی تھی۔ اشتہاروں میں موسیقی اور شاعری پر بہت دھیان دیا جاتا تھا۔ معصوم شکل والی منی سی بابرہ شریف کے واشنگ پاؤڈر کے اشتہار نے دھوم مچارکھی تھی۔ چمکیلی دھلائی کے لئے سب سے بہتر جیٹ واشنگ پاؤڈر۔

اس اشتہار میں لوگ اس کی لٹ کو بہت پسند کرتے تھے جو بار بار چہر ے پر آجاتی تھی۔ اس لٹ کے بارے میں بابرہ شریف نے ایک انٹرویو مین بتایا تھا کہ اس کو انگلی سے سارا دن گول گول گھماتی رہتی ہوں تو یہ ایسی ہوگئی ہے۔

اشتہار تک تو بابرہ شریف ہی ٹیوی میں نمبرون شمار ہوتی تھی پر ڈراموں کی پہلی نمبر ون روحی بانو ہی تھیں۔ بہرحال بابرہ شریف کا ایک ڈرامہ مس فور او کلاک جس نے دیکھا وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس ڈرامے میں انہوں نے ایک نرس کا کردار ادا کیا تھا جو چار بجے ڈیوٹی پر آتی تھی اور مریض ان کا انتظار کرتے تھے۔

بابرہ شریف نے فلم انڈسٹری کا رخ کیا تھا۔ ان کی پہلی فلم بھول تھی یہ فلم شمیم آرا نے بنائی تھی۔ اس کی پہلی ہیروئین تو شبنم تھی جس کا ہیرو ندیم تھا۔ ابھی کل ہی میں یوٹیوب میں اس فلم کا گانا دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی سی پیاز ڈالو تھوڑا تھوڑا گھی۔

بابرہ شریف کے مد مقابل منور ظریف تھے بابرہ نے فلم انڈسٹری میں آتے ہی تیزی سے کامیابی حاصل کی تھی۔ فلم میرا نام ہے محبت میں ان کے مقابل ٹیوی کے ہی فنکار غلام محی الدین تھے یہ فلم چین میں بھی نمائش پذیر رہی اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اس فلم کے سب کے سب گانے سپر ہٹ ثابت ہوئے جو ناہید اختر اور مہدی حسن نے گائے تھے۔

بابرہ شریف کے اس اشتہار کے علاوہ کافی اور بھی بہت پسند کیئے جاتے تھے۔ پشتو فلموں کے مشہور فلمی ہیرو بدر منیر گٹار لے کے گاتے دکھائی دیتے۔ مہکی مہکی خوشبو والی آدم چائے نرالی آھا جی آھاجی آھاجی۔ یہ اشتہار احمد رشدی نے گایا تھا۔ خوبصورت فلمی ہیرو ئین صوفیہ بانو ساحل سمندر پر اونٹ بان کے ساتھ گاتیں۔ چائے چاہیے کونسی جناب لپٹن ہی تو ہے لپٹن لیجیے۔

صوفیہ بانو فلم گھرانہ میں محمد علی کی ہیروئین بنیں تھیں۔ اکثر وہ رنگیلا اور منور ظریف کے ساتھ کام کرتی تھیں۔ عالم گیر کا گایا ہوا اشتہار۔ ایوری مارننگ ایوری ون گوز مارچنگ ود دی پیک فرنس پائپ پائیپر۔ یہ بسکٹ کا اشتہار تھا۔ عالم گیر نے پاپ کے علاوہ فلمی گیت بھی گائے۔ جگ جگ جگ جانے لا لا لا۔ سنائے آج کل کڈنی پیشنٹ ہیں۔

آرسی کولا پیا کرو مزہ جینے کالیا کرو۔ یہ احمد رشدی نے گایا تھا آرسی کولا کوکا کولا سے ملتی جلتی ڈرنک تھی پر زیادہ نہ چل سکی۔ تمباکو کا اشتہار محفلوں کی شان بڑھاتے ہیں پان، پان کی ہے جان ظہور زعفرانی پتی تمباکو۔ کوکا کولا سے ہر لطف دوبالا بے آواز پاک فین۔ کیپری صابن کا اشتہار کچھ یوں ہوتا تھا۔ یہ موج موج کیپری یہ کیف کیف کیپری۔ فلپس کے بلب اور ٹیوپ جلیں۔ ہائے اللہ اف باجی کتنے مزے کی ہے چٹنی احمد کی مینگو چٹنی۔ احمد کا حلوہ کا اشتہار اور خبرنامے سے پہلے لازمی آنے والا اشتہار۔ فرزانہ دواخانہ دستگیر نمبر9 کراچی۔

اس وقت کے نئے اور مقبول ہیرو ہیروئین فیصل اور آرزو ایک اشتہار میں نظر آتے۔ میری مٹھی میں بند ہے کیا، ناز پان مصالحہ۔ سب سے رعب دار اشتہار تو انٹر نیشنل لکس کا ہوتا تھا۔ لکس والوں چوٹی کی ہیروئین پیش کی تھیں جو کہتی تھیں۔ میرے حسن کا سنگھار نرم ملائم جھاگ والا انٹرنیشنل لکس۔

اپنے حسن کے سنگھار کے لئے ہماری آپاؤں نے انٹرنیشنل لکس کا بندوبست کررکھا تھا۔ اس صابن دانی کو ہمارے جیسے ہاتھ نہیں لگاسکتے تھے۔ وہ انتہائی عزت سے غسل خانے کے بجائے ان کے کمرے میں رہتی تھی۔ وہ لوگ سارا دن ہی ریڈیو پر فرمائشی پروگرام سنتی تھیں جس میں آل انڈیا ریڈیو ایران زاھدان آکا شوانی اور ریڈیو سیلون بھی شامل تھے۔

ان کے کمرے میں دروازے کے دونوں کی اطراف میں وحید مراد اور دیبا کی بلیک اینڈ وائٹ فوٹو فریم کروا کے لگائے گئے تھے۔ یہ فوٹو گھر میں آنے والے فلمی رسالے شمع سے پھاڑ کر فوٹو لگائے تھے۔ ان ہی دنوں کا ذکر ہے کہ لکس والوں نے ایک اسکیم شروع کی تھی۔ صابن کے گرد ایک ریپر لپیٹ کے دے رہے تھے۔ اس پر مشہور فلمی ہیروئینوں کے نگیٹیو فوٹو تھے کہا گیا تھا کہ فوٹو والیوں کے صحیح نام لکھ کے بھیجیں ریپر کے ساتھ تو آپ اپنی پسندیدہ ہیروئین کا پوسٹ کارڈ سائز فوٹو حاصل کرسکتی ہیں۔
ہماری بڑی بہنوں نے چار ریپر جمع کرکے بھیجے۔ نام بھی صحیح لکھے رانی نشو سنگیتا صائقہ کے نگیٹیو فوٹوز تھے۔

وعدے کے مطابق ان کو رنگین فوٹو بھیجنا تھا مگر وہاں سے سنگیتا کا بلیک اینڈ وائٹ فوٹو آن پہنچا ساتھ ہی معافی مانگی گئی تھی کہ اسٹاک میں سے رنگین فوٹو ختم ہوگئے ہیں۔ ہماری بہنیں بلیک اینڈ وائٹ فوٹو پاکر بھی بہت ہی خوش ہوتی تھیں اور سب کو دکھا رہی تھیں۔ اس سے پہلے میں نے پوسٹ کارڈ جیسا، اس طرح کا فوٹو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس اسکیم کے بعد تو ایک تبدیلی آگئی تھی یہ فوٹو ہر جگہ بک رہے تھے۔

سنگیتا کا وہ پوسٹ کارڈ سائز فوٹو ابھی بھی کہیں موجود ہے۔ سنگیتا دبلی پتلی خوبصورت ایکٹریس تھی جس نے چائلڈ اسٹار کے طور پر کام شروع کیا تھا۔ میرے خیال سے فلمی دنیا میں ان کو جتنا ہروئین کے طور پر حصہ ملنا چاہیے تھا اس سے کم ملا۔

خوبصورت سنگیتا اکثر سائیڈ ہیروئین کے طور پر ہی نظر آتیں۔ ان کی ہیروئین کے طور پر شاہد کے ساتھ دو فلمیں دل کا شہر اور بہاروں کی منزل کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکیں تھیں۔ مگر وہ رنگیلا کی فلموں میں ہیروئین بن کر تو ہٹ ہوتی تھیں۔ پھر انہوں نے خود ہی فلمیں بنانی شروع کی تھیں محل میرے سپنوں کا، تیرے میرے سپنے، سوسائٹی گرل وغیرہ۔ پروڈیوسر کے طور پر زیادہ مقبول رہیں اور نگار ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے 70ویں سالگرہ مناتے ہوئے میں نے ان کا فوٹو دیکھا تھا۔ اخباری اطلاع کے مطابق وہ ہیپا ٹائٹیس سی کا مقابلہ کرکے بچ گئیں تھیں۔
ہاں تو بات ہورہی تھی پوسٹ کارڈ کی جو بعد میں میں نے ڈھیروں ڈھیر خرید لئے تھے جب تنگ آگئی تو بعد میں، میں نے یہ اپنی چھوٹی بھانجیوں کو آدھی قیمت میں فروخت کرکے مال کمانے لگی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).