میاں صاحب! عوام کو آپ کی صفائیوں کی ضرورت نہیں



\"salar\" عموماً پاکستان میں جب کوئی نیا برس آن پہنچتا ہے تو عوامی حلقوں کے اندر اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ گذشتہ سال نے ملک کو کیا دیا اور کون کون سی محرومیاں ہمارے دامن سے لپٹ کر رہ گئیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہر سال جنوری کے پہلے کچھ روز میں پاکستانی میڈیا اور ابلاغ کے دیگر ذرائع میں بیتے ہوئے برس کے دوران پیش آئے ہوئے ناپسندیدہ واقعات کی تاریخ کا تخمینہ لگایا جاتا ہے اور اکثر و بیشتر ایسے واقعات کی طویل فہرست کو دیکھ کر ایک بات کا اندازہ لگ جاتا ہے کہ ہر گذرتا ہوا سال پاکستان کے لئے ظلم، بربریت، ناانصافی، دہشت و وہشت کی ایک نئی نوید چھوڑ کر جاتا ہے۔ تاہم اس حقیقت کے پیشِ نظر اگر 2016ع کا اب تک کا جائزہ لیا جائے تو حالات پچھلے برسوں کی بہ نسبت قدرِ بہتر محسوس ہوتے ہیں۔ اس کا قطعی طور پر یہ مقصد نہیں ہے کہ حالیہ برس کے شروعاتی پانچ ماہ میں جو برے واقعات رونما ہوئے ہیں ان کو فراموش کر دیا جائے لیکن اس کے برعکس، اس حقیقت کو جھٹلانا بھی زیادتی کے مترادف ہوگا کہ رواں سال میں اس ملک کو کئی اچھی خبریں بھی سننیں کو ملیں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کرپشن، لاقانونیت، ناقص طرزِ حکمرانی اور دیگر مسائل جو اس ملک کی بقا کے ساتھ منسلک تھے، ان میں بہتری بھی دیکھی گئی ہے۔ تاہم یہ سلسلہ اگر اسی رفتار کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن رہا تو یقینی طور پر پاکستان کا وقار دنیا کے نقشے کے اوپر مزید بلندی پر جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے چند اصلاحات درکار ہیں جو اس عمل میں زیادہ مفید ثابت ہوتے ہوئے پاکستان میں بہتر حکمرانی کو فعال بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
کچھ عرصہ پیلے تک دنیا میں کرپشن کے حوالے سے پاکستان کا وقار بہت تشویشناک حد تک گر چکا تھا جو نہ صرف پاکستان کے اندرونی مسائل کا بھی بنیادی سبب تھا لیکن بیرونی ممالک بھی کرپشن کی اس وبا کی وجہ سے پاکستان کو سوالیہ نگاہوں سے گھورتی دکھائی دیتی تھیں لیکن حال ہی میں ملک کے اندر احتساب کے عمل کا آغاز اس بات کا عندیہ ہے کہ اگر سول حکومت ملک میں بہتر حکمرانی کو یقینی بنانے میں سنجیدہ نہیں بھی ہے تو کم از کم اسٹیبلشمنٹ کو اب یہ بات منظور نہیں ہے اور یہ ہی وجہ ہے جس کے تحت ملٹری نے اس عمل کا آغاز اپنے ہی گھر سے کر لیا ہے اور یہ اشارہ سول حکومت کے لئے کافی تھا۔ جس کے بعد ملک میں نیب، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں نے احتساب کے عمل کو مزید تیز کیا ہے اور وہ نہ صرف کرپشن کے خاتمے کے لئے میدان میں آئے ہیں بلکہ کرپشن میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہڑے میں بھی لانے کے لئے پرعزم دکھائی دیتے ہیں جو کہ اس ملک کے لیے اور پاکستان کے باشندوں کے لئے ایک مثبت قدم بھی تصور کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے پاکستان میں خراب حکمرانی کے باعث بگڑے ہوئے معاشی حالات بھی معمول پر آ رئے ہیں۔
رواں برس میں جہاں پاکستان کی منتخب حکومت پاناما پیپرز کے پنڈورا باکس کھلنے کے بعد شدید مشکلات سے دوچار ہے اور وفاقی حکومت کے خلاف حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں ایک محاذ بنا کر اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ ان تمام حالات سے کچھ دوری پر اس حکومت کے کچھ ایسے کارنامے بھی کھڑے ہیں جو اس حکومت کے لئے بڑی کامیابی کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ یں میں ایک تو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ شامل ہے جس کے باعث پاکستان میں بیرونی ممالک کے لئے سرمایہ کاری کے راستے کھلے ہیں تو دوسری طرف بلوچستان میں احساسِ محرومی والا تاثر گردش کرتا تھا اس میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ڈھائی برس تک بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ رہنے والے نیشنل پارٹی رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی خدمات یقیناً قابلِ تعریف ہیں کہ جن کے طفیل بلوچستان کے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ ریاست کے پاس ان کے لئے بھی وہی جذبات ہیں جو دوسرے صوبوں کے لوگوں کے لئے ہیں تاہم اس سلسلے میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کچھ عرصہ قبل بلوچستان میں وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی کے بعد واضح طور پر یہ تاثر ابھرا ہے کہ موجودہ وزیرِ اعلیٰ اس طرح سے حکمرانی کی ڈور نہیں چلا پا رہے جس دانشمندی کے ساتھ ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے ڈھائی برس کے دورِ حکمرانی میں بلوچستان میں کام کیا۔ اس کے باوجود بھی گذشتہ حکومتوں کے بہ نسبت حالیہ حکومت بلوچستان سے احساسِ محرومی کو کم کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر اور سابق وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کی بازیابی حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیلینج بنی ہوئی تھی جبکہ عام طور پر یہ ہی بازگشت سنائی دے رہی تھی کہ اتنا طویل دورانیہ گذرنے کے بعد بھی اگر اب تک یہ بازیابی نہ ہو سکی ہے تو اب شاید کبھی ان مغویوں کا سراغ نہ مل سکے۔ لیکن 8 مارچ 2016ع کی شب جب شہباز تاثیر کی بازیابی عمل میں آئی تو اس کے بعد علی حیدر گیلانی کی کھوج لگانا اس حکومت کے لئے دباؤ کا باعث بن چکا تھا ۔ چنانچہ دو ماہ کے مختصر عرصے کے دوران 10 مئی کے روز افغانستان کے غزنی والے علاقے سے علی حیدر گیلانی کی بازیابی خواہ حکومتِ پاکستان کی کاوشوں کا نتیجہ نہ ہو لیکن سابق وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو سلامتی سے گھر والوں تک پہنچانا بھی اس حکومت کے کامیابیوں کی فہرست میں ضرور شامل ہو گیا۔
مختلف مسائل کے شکنجے میں گھری ہوئی موجودہ حکومت ان دنوں عوام کو اپنے سیاسی حریفوں کی طرح ہی جلسے جلوسوں کے ذریعے صفائی پیش کرنے میں مصروفِ عمل ہے جس کی تشہیر پر ہونے والی شاہ خرچیاں حکومت کے لئے مزید مشکلات میں اضافہ کرنے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ اس کے برعکس ان تمام مسائل سے نجات کے لئے حکومت کو چاہئیے کہ بہتر طرزِ حکمرانی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں اپنے کردار کو یقینی بنائے کیونکہ ملک کے پسماندہ علاقوں کے لوگ پاناما پیپرز کے بارے میں کچھ جانتے ہیں نہ انہیں احتساب لفظ کے معنوں کا کوئی علم ہے۔ سندھ کے شہر شہر شاہراہوں پر بھٹکتی ایک ماں کے آنسو حکومتِ وقت سے سوال کرتے ہیں کہ شہباز تاثیر اور علی حیدر گیلانی تو بالآخر آزاد ہو ہی گئے لیکن کیا آج سے 9 برس قبل مقامی سرداروں کی جانب سے اغوا کرائی گئی اس کی چار سالہ بیٹی فضیلا سرکی کی واپسی بھی ممکن ہو پائے گی یا نہیں؟ وہاں کی صوبائی حکومت تو احکامات در احکامات جاری کرنے کے باوجود بھی اب تک بے بس دکھائی دیتی ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں بسنے والے لوگ تو ریاست کے قانون و آئین کو ٹھکرانے والے ان وڈیروں کے جرگوں کے رحم و کرم پر ہیں جو اپنے مخصوص انداز میں قبائلی طور طریقوں سے ان جرگوں کے ذریعے معصوم لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور ایسے میں وہ کسی بھی قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔
یہاں تو بیروزگاری کے باعث اس قوم کے نوجوانوں کا معاشی قتل ہو رہا ہے جس سے نمٹنے کے لئے حکومت کو کسی جامع پالیسی کا اعلان عمل میں لانا ہوگا اور ملک کے سب سے بڑے مسئلے لوڈشیڈنگ کے پر جلد کوئی قابو پا کر اس دوزخ جیسی گرمی میں عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔
میاں صاحب! یقین جانئے، اگر ان اور ان جیسے تمام عوامی مسائل کے حل کےلئے آپ اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کو سہولت فراہم کریں گے تو اس صفائی کی عوام کو کوئی ضرورت نہیں ہے جو آپ شاہی جلسوں کے ذریعے دیتے پھر رہے ہیں۔ ویسے بھی کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
خطاوار سمجھے گی دنیا تجھے،
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).