بھارتی مسلمان تعلیم کے میدان میں کیوں پیچھے ہیں؟


بھارت میں مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال کے حوالے سے سنہ 2006 کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہی وہ سال ہے جس میں سچر کمیٹی کی رپورٹ آئی جس نے مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال کا تفصیل اور باریکی سے جائزہ لیا۔ اس سے پہلے تک مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی باتیں کہی تو جاتی تھیں لیکن کسی سائنٹفک طریقے سے جمع کیے گئے ایسے اعداد و شمار دستیاب نہ تھے جو صورتحال کی صحیح صحیح نشاندہی کرتے ہوں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے اس خلا کو پر کیا اور بتایا کہ ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال دلت برادری جیسی اور کئی جگہ تو اس سے بھی بدتر ہے۔

یہ ایک سنسنی خیز انکشاف تھا جس کے بعد مسلم حلقوں میں تعلیمی پسماندگی پر بات ہونے لگی۔ ایسی ہی کسی مجلس میں سید حامد مرحوم نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر بات ہونا خوشگوار بات ہے لیکن ہماری سوچ کا عمل سے عاری ہونا فکرمندی کا سبب ہے۔ سید حامد کی دوراندیش نگاہیں اس وقت جس المیہ کو دیکھ رہی تھیں بعد کے برسوں میں وہ سب نے دیکھا۔ خوب گفتگو ہونے کے باجود مسلمانوں کی طرف سے من حیث القوم ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی جس سے مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال کو بہتر کیا جا سکتا۔ سید حامد اگر آج زندہ ہوتے تو شاید وہی شکوہ پھر دہراتے کیونکہ بھارتی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا علاج کرنے کی سمت قدم اٹھانا تو دور ہم نے سنجیدگی سے اس پر کوئی لائحہ عمل تک ترتیب نہیں دیا ہے۔

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے اسباب گننے بیٹھئے تو کئی چیزیں سامنے آئیں گی۔ سب سے پہلی بات تو شاید یہی ہے کہ آج بھی بھارتی مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ تعلیم کی اہمیت سے نابلد ہے اور اس کے نزدیک تعلیم اور روزگار لازم و ملزوم ہیں۔ ایسی گفتگو عام طور پر سننے کو مل جاتی ہے کہ جب پڑھ لکھ کر نوکری ملنی نہیں تو جان کھپانے سے کیا حاصل؟ مسلمانوں کی بستیوں میں چلے جائیے اور ایک ایک دکان یا کارخانے میں جھانک کر دیکھئے کہ کہاں کہاں نوعمر بچے کسی ہنر میں ڈال دیے گئے ہیں۔ گاؤں دیہات کا ذکر تو دور بڑے شہروں کی مسلم بستیوں میں بھی نوعمر بچوں کو کسی کام سیکھنے پر بٹھا دینا عام بات ہے۔ اس کی ایک وجہہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر مسلم آبادی کے بڑے حصے کی مالی حالت کمزور ہوتی ہے اور انہیں اپنے بچے کے جلد برسرروزگار ہونے میں زیادہ دلچسپی رہتی ہے۔ ہمیں بطور قوم یہ بات سمجھنے میں شاید ابھی بہت دن لگیں گے کہ تعلیم کا مقصد صرف روزگار اور روٹی کا حصول نہیں بلکہ یہ انسانی شخصیت کی تکمیل کے لئے بھی ضروری ہے۔

تعلیمی پسماندگی دور نہ ہونے کا دوسرا بڑا سبب ہمارے علمائے کرام کا دنیاوی تعلیم سے بد دل ہونا بھی ہے۔ یوں تو عام طور پر ہی علمائے کرام تعلیم کے حصول پر خال خال ہی زور دیتے ہیں اور اگر کبھی انہیں تعلیم پر زور دینے کا خیال آتا بھی ہے تو ان کا مقصود دینی تعلیم ہوتی ہے۔ محلے کی مسجد کے امام سے لے کر جامع مسجد کے امام و خطیب تک کسی کے پاس نہ تو اس بات کے اعداد و شمار ہوتے ہیں کہ اس کے علاقے میں کتنے بچے اسکول نہیں جا رہے اور نہ ہی انہیں اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ علاقے کے سرگرم اہل علم افراد کے ساتھ ہم آہنگی کرکے بچوں کو تعلیم دلانے سے متعلق اقداماتکیے جائیں۔ تعلیمی بیداری کے سلسلہ میں سرد مہری صرف علمائی اور مساجد کے آئمہ میں ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی چھوٹی بڑی ملی تنظیموں میں بھی خوب ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرنے میں پیش پیش رہنے والی جماعتیں اپنے گلی محلے کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے سلسلہ میں زیادہ متوجہ نہیں دیکھی گئیں۔

بہت سے لوگ اصرار کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا سبب ان کی معاشی بدحالی ہے۔ پیسہ نہ ہونے کی وجہہ سے ماں باپ بچوں کے لئے اچھی تعلیم کا بند و بست نہیں کر پاتے اور مسجد کے مکتب اور سرکاری اسکولوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جہاں معیاری تعلیم نہیں مل پاتی۔ اس دلیل کو یکسر مسترد تو نہیں کیا جا سکتا لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معیاری تعلیم کا فقدان معاشی بدحالی کا سبب ہے یا معاشی بدحالی معیاری تعلیم کے فقدان کی وجہہ ہے؟ میرے خیال میں یہ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کے پاس معیاری تعلیم کی کمی رہتی ہے اس لئے انہیں اچھے روزگار نہیں مل پاتے اور یہ بے روزگاری معاشی بدحالی کی طرف لے جاتی ہے۔

مثال کے طور پر زید کے پاس اچھی تعلیم نہ تھی جس کی وجہہ سے وہ بے روزگار رہا اور اسی بے روزگاری اور غربت میں اس کی شادی ہوئی جس کے بعد اس کے یہاں بکر پیدا ہوا۔ اب ظاہر ہے جو زید پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہے اس کے پاس اتنے وسائل مہیا ہونے مشکل ہیں کہ بکر کو معیاری تعلیم دلا سکے۔ گویا یہی سلسلہ اب بکر اور اس کے بیٹے میں آگے بڑھے گا۔ اس مقدمہ سے ایک بات نکل کر آئی اور وہ یہ کہ اگر افلاس کے اس دائرے کو ختم کرنا ہے تو کسی نہ کسی مرحلے پر معیاری تعلیم حاصل کرنی ہی ہوگی بھلے ہی اس کے لئے فاقے کیوں نہ کرنے پڑیں ورنہ غربت کا سلسلہ چلتا ہی چلا جائے گا۔

بھارتی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر بحث کرتے ہوئے یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان تعلیمی میدان میں دیگر برادریوں سے بہت پیچھے ہیں۔ اب اگر انہیں تعلیمی میدان میں جاری مقابلہ آرائی کا حصہ بنے رہنا اور اپنے لئے جگہ بنانی ہے تو انہیں اپنے سے آگے نکل چکے افراد کو دوڑ کر پکڑنا ہوگا تاکہ وہ مقابلے میں بنے رہیں۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ دوڑ کر برابر آنا تو دور تعلیمی میدان میں مسلمانوں کا دوسری برادریوں سے فاصلہ مسلسل بڑھ ہی رہا ہے۔ اس مرحلہ پر یہ بات بھی کہی جانی ضروری ہے کہ سرکاری اسکول بھلے ہی بڑے نجی اسکولوں جیسی معیاری تعلیم نہ دیتے ہوں اور مکتب میں پڑھنے والے بچے اچھے اسکولوں کے بچوں کے مقابلے کمزور ہوں لیکن شاید تمام مسلمان بچے یہ غیر معیاری تعلیم بھی نہیں پا رہے۔ اگر سب کے سب بچے اسکولوں اور مکتب میں جا رہے ہوتے تو بھارتی مسلمانوں کی خواندگی کی شرح ملک کی عام خواندگی کی شرح سے اتنی کم نہ ہوتی۔

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ مسلمان خواتین کا تعلیمی میدان میں تقریبا قابل رحم حالت میں ہونا ہے۔ مسلمان مرد ہی جب تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہوں وہاں بچیوں کی تعلیم پر کہاں توجہہ ہوگی؟ خواتین کی تعلیم صرف ان کی شخصیت کی تکمیل کے لئے ہی ضروری نہیں ہے بلکہ آئندہ نسلوں کی تربیت اور ان میں تعلیم کا شوق پیدا کرنے کے لئے بھی لازمی ہے۔ کسی بھی بچے میں تعلیم کا ذوق و شوق پیدا کرنے میں گھر کے علمی ماحول کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ اب جہاں ماں باپ ہی تعلیم یافتہ نہ ہوں وہاں ایسا ماحول کیونکر میسر آ سکتا ہے؟

بطور سماج بھارتی مسلمانوں کی بڑی تعداد آج بھی یہی کہتی سنائی دیتی ہے کہ لڑکیوں کو زیادہ کیوں پڑھائیں انہیں کون سی نوکری کرنی ہے؟ تعلیم کو نوکری سے جوڑ کر دیکھنے کی ہماری فکر نے ہی ہمیں مار ڈالا ہے۔ کبھی فرصت ہو تو مسلم علاقوں میں بچیوں کے اسکولوں کا جائزہ لیجیے۔ ان میں پڑھانے والی استانیوں کی تعلیمی لیاقت کیا ہے؟ ، اسکولوں کا انفراسٹرکچر کیسا ہے؟ بچیوں کو امتحان پاس کرانے سے آگے بڑھ کر بھی کیا علم سے قریب کیا جا رہا ہے؟ ان سوالات پر غور کیجئے گا تو پتہ چلے گا کہ حالات کتنے خراب ہیں۔

مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم ہر جگہ مسلمانوں کی حالت افسوس ناک حد تک بگڑی ہوئی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ کیفیت یہ ہے کہ ہمیں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں لگتا۔ آج بھی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا تو دور اس پر کوئی خاکہ تک نہیں بنایا گیا۔ بچے اسکولوں کی جگہ کارخانے میں جاکر خیرات مشین پر بیٹھ رہے ہیں یا پھر پھلوں کے ٹھیلے پر اپنے بڑوں کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے ایک دہائی بعد مسلمانوں نے کچھ ایسا ٹھوس کیا ہوتا کہ حالات بہتر ہوتے نظر آتے لیکن افسوس کہ ہماری سوچ عمل سے عاری ہی رہی۔ حکومت کے اقدامات پر ہی مکمل انحصار اور بس اسی کا انتظار ہمیں مزید ابتر صورتحال کی طرف دھکیل رہا ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter