پلیئر آف دی ٹورنامنٹ ، جبران ناصر


پاکستان کی تاریخ کے ایک اہم انتخابات مکمل ہو گئے۔ ان انتخابات کی اچھی بات یہ تھی کہ مجموعی طور پر ان کا انعقاد پرامن رہا۔ اس کا سہرا قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو جاتا ہے۔ ان انتخابات میں کئی بڑے بڑے برج بھی الٹے جن میں چودھری نثار، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، اسفند یار ولی، غلام احمد بلور، فاروق ستار، محمود اچکزئی، مصطفیٰ کمال شامل ہیں۔ اور کچھ نتائج توقعات کے مطابق بھی آئے۔ زیادہ تر لوگوں کے مطابق تو ان انتخابات کا پلیئر آف ٹورنامنٹ تو بلا شبہ عمران خان ہی ہوں گے کیونکہ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشتیں حاصل کی۔ اور بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ اعزاز جنھوں نے خان صاحب کی اس سب میں مدد کی ان کو ملنا چاہئیے۔ مگر میرے خیال میں ان انتخابات کا پلیئر آف دی ٹورنامنٹ جبران ناصر ہیں۔

جبران ناصر ایک سماجی کارکن ہیں اور سماجی مسائل پر اپنی آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان انتخابات میں انھوں نے کراچی کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 247 اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 111 سے حصہ لیا۔ جبران نے گو کہ دونوں نشستوں پر چھ ہزار ووٹ ہی حاصل کیے مگر جس انداز میں انھوں نے اپنا ایک جامعہ منشور پیش کیا اور اپنی انتخابی مہم چلائی، وہ قابلِ دید ہے۔ اپنے منشور میں انھوں نے جن اہم نکات کوجگہ دی ان میں فوج کی سیاست میں عدم مداخلت، نظامِ عدل کی کمزوریوں، خواتین کے حقوق کا تحفظ، وی آئی پی کلچر کی حوصلہ شکنی، اقلیتوں کےخلاف مظالم اور ان کے حقوق کا تحفظ، میڈیا کی آزادی اور سنسرشپ کی حوصلہ شکنی، صاف پانی کی فراہمی، ماحولیاتی آلودگی، کرپشن اور بیڈ گورننس کی حوصلہ شکنی، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، طلبہ اور مزدور تنظیموں کی بحالی، علاقائی امن اور مظبوط خارجہ پالیسی، معاشی اصلاحات، فنونِ لطیفہ اور ادب کا فروغ شامل ہیں۔

ان تمام امور کو اپنے منشور کا حصّہ بنانے پر جبران کے اس سیاسی منشور کو دی پبلک انٹیرسٹ لاء ایسوسی ایشن آف پاکستان (PILAP) کی جانب سے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور کے مقابلے میں سب سے بہترین قرار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کی ہمارے جیسے ملک میں جہاں اس طرح کا کوئی رجحان نہیں ہے وہاں بڑی سیاسی جماعتیں بھی مستقبل میں اپنے سیاسی منشورپر توجہ دیں گی۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران جبران ناصر نے کچھ نئی روایات بھی قائم کیں۔ جن میں سے ایک انتخابات میں پیسے کے بے دریغ استعمال کی جو روایت کچھ عرصہ سے پڑ گئی یے اس کی حوصلہ شکنی ہے۔ اور انھوں نے یہ ثابت کیا ہے اگر لگن سچی ہو تو پیسے کے بغیر بھی ایک موثر انتخابی مہم چلائی جا سکتی ہے۔ اس سے پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ بھی سیاست میں آکر ان کی طرح ایک اچھی مثال بن سکتے ہیں۔

ایک اور اچھی روایت جو جبران ناصر نے قائم کی وہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہماری سیاست میں نظریات کی کوئی اہمیت رہ ہی نہیں گئی۔ یہاں پر سب سیاسی جماعتیں ہی اپنے وقتی فائدے کے لئے نظریات کو قربان کر دیتی ہیں چاہے وہ مذہبی نظریات ہوں یا کوئی اور۔ جبران کو بھی ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان سےبار ہا ان کی انتخابی مہم کے دوران یہ کہا گیا کہ وہ اپنے عقیدے کی وضاحت کریں اور ایک مخصوص عقیدے کے لوگوں کو غلط کہیں، اگر کوئی اور ان کی جگہ پر ہوتا تو شاید ووٹ حاصل کرنے کے لئے ان کی بات مان لیتا، مگر جبران ناصر نے بہت ہمت دکھائی اور دھمکیوں اور حملوں کے باوجود جھکنے سے انکار کر دیا اور سب کو یہی پیغام دیا کہ ان کی نظر میں سب برابر ہیں اور وہ مذہب اور مسلک کی بنیاد پر کبھی بھی سیاست نہیں کریں گے ان کی سوچ ان سب باتوں سے بالا تر ہے اور اگر اس وجہ سے ان کو کوئی ووٹ نہیں دیتا تو وہ بالکل بھی نہ دے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر نیت صاف ہو تو اس گھٹن زدہ سماج میں بھی نئی روایات قائم کر کے مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

جبران ناصر نے ان انتخابات میں تو آذاد امیدوارکی حیثیت سے حصہ لیا مگر اب انھوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو کہ بہت خوش آیئند ہے اور ان کی سیاسی جماعت ہماری سیاست میں ایک بہت اچھا اضافہ ثابت ہو گا۔ انتخابات 2018 کے پلئیر آف دی ٹورنامنٹ کے لیے بہت ساری نیک تمنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).