ظہور حسین ظہور کی کتاب ”کوڑے گھٹ“


پاکپتن کے نامور عوامی شاعر ظہور حسین ظہور کی پنجابی شاعری کی کتاب ’کوڑے گُھٹ‘ معاشرے کی سچی تصویر پیش کرتی ہے۔

ظہور حسین ظہور نے لفظوں کے دھاگے سے زندگی کی ایسی تصویر بنی ہے جو بیک وقت آنکھوں کے لیے خوبصورت بھی ہے اور تلخ بھی۔ ’کوڑے گُھٹ‘ میں انسانی زندگی کو اپنے تمام تر روشن اور تاریک پہلوؤں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

ظہور حسین ظہور حساس دل رکھتے ہیں۔ وہ خوابوں کی بستی بساتے ہیں مگر جلد ہی زندگی کی تلخ حقیقتوں کی طرف پلٹ آتے ہیں۔
جیسا کتاب کے نام سے ظاہر ہے انہوں نے انسانی مجبوریوں کو شعروں میں ڈھالا ہے اور ان کی شاعری میں انسان کی حالت اس قیدی پرندے کی سی ہے جو پنجرے میں بند ہے اور اپنے پروں کو سلاخوں کے ساتھ پٹختا رہتا ہے۔

نظراں دا جال وچھایا اے انج تیرے حُسن شکاری نے
پنجرے پا کے پرَ کٹ لے نیں ہن کونجاں دا کرلانا کی

”کوڑے گھٹ‘‘ میں شامل ’سوچاں دی میت‘، ’بلے بلے‘ اور ’اسیری وچ‘ ایسی نظمیں ہیں جن میں ظُلم کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے۔
ظہور حسین ظہوؔر نے ظلم اور زیادتی کے خلاف مزاحمت کی اور انہوں نے ستر کی دہائی میں ضیاء آمریت کے دور میں ظلم و ستم کے خلاف لوگوں میں آگاہی پیدا کی۔ اسی پاداش میں قید و بند کی صعوبیتں بھی جھیلیں۔

سوچاں دی میت نو چا کے، ہن میں کیہڑے گھر جاواں گا
جے بولان تے مار دین گے، نہ بولاں تے مر جاواں گا

ظہور حسین ظہوؔر کو ظلم کے خلاف جنگ جیتنے کی امید تو کم تھی لیکن ظالم کے خلاف مزاحمت کرنے کو ہی وہ فتح قرار دیتے ہیں۔
کوڑے گھٹ پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ ظہور حسین ظہور معاشرے کی برائیوں پر کڑھتے ہیں۔ وہ معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں۔

نا انصافیوں اور ناہمواریوں پر وہ لفظوں کے طنزیہ تیر چلاتے ہیں۔ جھوٹ، منافقت، ظلم، استحصال، بھوک، غربت اور دھوکہ دہی وغیرہ ایسے معاملات پر وہ کھل کر بولتے ہیں۔ میٹھے لفظوں میں نوکیلی تنقید کا فن خوب جانتے ہیں۔

تولاں دے وچ مارنے آں، کجھ بولاں وچ مارنے پئے آں
اگاں لا کے کسے دے گھر نوں، اپنا سینا ٹھارنے پئے آں

شیر محمد افضل جعفری ظہور حسین ظہور کے بارے میں لکھتے ہیں۔
”ایہہ طنز دا امیر تیمور تے رومان دا سخی سلطان اے‘‘
کوڑے گھٹ میں ظہور حسین ظہور کی وطن پنجاب کی دھرتی اور پنجابی زبان سے محبت بھی چھلکتی نظر آتی ہے۔
نظم ”اپنے پیارے دیس دے ناں‘‘ وطن عزیز سے ان کی والہانہ محبت کا ثبوت ہے۔ سچے محب وطن کی طرح وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے وطن کے سب مسائل ختم ہو جائیں اور ہر سو امن ہو جائے۔

دم دم نال ظہور دعاواں
وسن تیرے شہر گراں

ظہور حسین ظہور ملک میں انقلابی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ وہ ظلم اور غربت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ ان کی انقلابی شاعری ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا درس دیتی ہے اور ظلم کو خاموشی سے سہنے کو وہ گناہ کبیرہ گردانتے ہیں۔

میرے دیس دیو مظلومو اُٹھو ظلم نوں پائیے ٹھلا
چڑھ آوے تے فیر نہیں رُکدی بھکھ ننگ دی لال ہنیری

کوڑے گھٹ میں رومانوی شاعری بھی ہے جہاں شاعر زندگی کی تلخ حقیقتوں سے دور ایک تخلیلاتی جہاں بساتا ہے۔ اس رومانوی دنیا میں سکون اور شانتی ہے۔ رنگ برنگے پھول کھلے ہیں۔ محبوب کی زلفیں ہیں ہر سو خوشبو پھیلی ہے۔

پتلے مہین ہوٹھاں تے ہاسا جے آ گیا
شکوے گِلے کد ورتاں بھل گئیاں ساریاں
خوشبواں کھنڈیاں تے ہواواں وی مہکیاں
زلفاں نچوڑ کے تے کسے نے کھلاریاں

ولیم ورڈز ورتھ کی طرح ظہور حسین ظہور بھی فطرت کے حسیں نظاروں میں کھو جاتے ہیں اور ان پہ سرور کی ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس میں وہ مست ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ وجدانہ کیفیت زیادہ دیر نہیں رہتی۔ زندگی کی کرواہٹ بھری حقیقتوں کے کانٹے انہیں چھبنے لگتے ہیں اور وہ جلد اس رومانوی دنیا سے دامن جھاڑ لیتے ہیں اور کانٹوں پہ چلنے لگتے ہیں۔
وہ فطرت کے نظاروں کا لطف لینا چاہتے ہیں مگر امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی طرح اپنی ذمہ داریوں اور مجبوریوں کو بھلا نہیں سکتے۔ اپنی نظم ”وادی کیلاش کافرستان‘‘ میں وادی کے حسن کے دیوانے ہو جانے کے باوجود وہ اپنی انسانی حدود و قیود کو نہیں بھلا پائے۔

جھلیے جے مجبوریاں مکن تیرے قد میں عمر گزاراں
دل کردا اے اک اک شے نوں جھپیاں پاواں سینہ ٹھاراں

ظہور حسین ظہور جہاں سادہ الفاظ میں سیدھی بات کر جاتے ہیں وہاں وہ علامتی شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں علامتیں، استعارے، تشبیہات اور حوالے بھی کثرت سے استعمال کیے گئے ہیں۔
انہوں نے پنجاب کے روایتی کردار ہیر رانجھا، کیدو، کھیڑے اور سوہنی مہیوال کو علامتی طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ کچا گھڑا، دریا، اندھیری رات، طوفان، بادل، پھول اور کانٹے علامتوں کے طور پر استعمالکیے ہیں۔

اجے وی ہیراں لٹیاں جاون اجے وی ظالم کھیڑے دسدے
اجے وی زہر مثالی نیں تے کیدو اجے بہتیرے دسدے

پروفیسر نوید احمد عاجز کے مطابق بابا فرید کی دھرتی پہ خادم چشتی اور ظہور حسین ظہور پنجابی کے دو بڑے شعراء گزرے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”ظہور حسین ظہور“ کی شاعری میں مزاحمتی لہر ہے۔ ان کی غزلوں میں ہجر کی آگ ہے تو نظموں میں غریب اور نچلے طبقے کی پکار سنائی دیتی ہے۔
کوڑے گھٹ میں ساغر صدیقی، وارث شاہ، حفیظ اختر اور کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کو نظموں کی شکل میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔

ظہور حسین ظہور کی شاعری میں انسان اور زندگی کے ایسے پہلو نظر آتے ہیں جو عالمگیر اہمیت کے حامل ہیں۔ کہیں عارضی و مختصر زندگی کا پچھتاوا ہے تو کہیں ادھورے سپنوں کا دکھ ہے۔ کبھی وہ موت کے بھیانک چہرے سے خوف زدہ ہیں تو کبھی قسمت کی بھول بھلیوں میں الجھے انسان کی آواز بن جاتا ہے۔
کچھ ایسے سوال اٹھاتے ہیں جن کے جواب نہیں ملتے۔ یہ عالمگیریت ان کو عظیم شاعر بناتی ہے۔

جے جناں کولوں نسنے آں آدیواں اُتے پینے آں
قسمت دیاں جادوگریاں نوں صبراں دے سہنے آں

کوڑے گھٹ میں اگرچہ ا یسے معاشرے کا عکس ہے جہاں مایوسی کے اندھیرے ہیں۔ کتاب کے کرادار گھٹن میں سانس لیتے ہیں۔

پوہ نہ پھٹی سکدے مر گئے
دل دے دکھڑے لکھدے مر گئے
لیکن نا امیدی کے گھپ اندھیرے میں بھی ظہور حسین ظہور ایک زندہ دل انسان کی مانند امید کی شمع روشن رکھتے ہیں۔ جوان کے بس میں ہے وہ کرتے ہیں اور یہی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
ننگیاں تلیاں اُتے تتی ریتے ہسں
کونجاں وس کرلاون مینہہ قادر دے وس

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti