کیا انتخابی دھاندلی کی تاریخ پھر دہرائی گئی؟



پچیس جولائی دو ہزار اٹھارہ کو عام انتخابات کو ہوئے آج اکتیس جولائی کو پورے پانچ دن گزر چکے ہیں، لیکن ابھی تک انتخابی نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ الیکشن کمیشن نے چھبیس حلقوں میں دوبارہ گنتی کا حکم دے دیا ہے اور یوں انتخابی عمل مکمل ہونے میں ابھی دیر ہے۔ جب تمام حلقوں میں گنتی مکمل ہو جائے گی اور نتائج کا حتمی اعلان ہو جاتا ہے، تب جا کر الیکشن کمیشن آف پاکستان نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔

اس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب اور پھر وزیر اعظم کو منتخب کیا جائے گا۔ غالباً پہلی بار انتخابی نتائج میں اتنی تاخیر ہوئی ہے، اور انتخابی نتائج کو تحریک انصاف کے سوا تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

پاکستان میں انتخابی دھاندلی کی ایک لمبی داستان ہے جس کا سلسلہ ساٹھ کی دہائی میں میں ایوبی دور سے ہوا، جب انیس سو پینسٹھ میں ڈِکٹیٹر ایوب خان نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن کو شکست دینے اور انھیں سیاسی عمل سے باہر رکھنے کے لیے سب سے پہلے تو عام انتخابات کرانے اور پارلیمانی نظام کے اجرا کو روکنے کے لیے صدارتی نظام کو فروغ دیا اور صدارتی انتخابات کروا دیے وہ بھی اپنے من پسند بنیادی جمہوری اداروں کے اسی ہزار بی ڈی نمایندوں کے ذریعے اپنے آپ کو صدر متخب کرا لیا۔

کتابوں اور اس وقت کے سینئر صحافیوں سے پتا چلتا ہے کہ فاطمہ جناح کے خلاف بھی اسی قسم کی غلیظ بیان بازی اور اخباری مہم چلائی گئی، جیسے بے نظیر بھٹو اور اب کی بار نو از شریف اور بلاول، اور دوسرے رہنماؤں کے خلاف پروپگنڈہ کیا گیا۔ فاطمہ جناح کو ایسے ہی غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا جیسے آج نواز شریف کو بھارتی ایجینٹ اور غدار قرار دیا جاتا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل تھے۔ میں یہاں یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر بھٹو اور نواز شریف کرسی کے حصول کے لیے ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں میں نہ کھیلتے تو شاید آج ہم یہ دن نہ دیکھ رہے ہوتے۔ مجھے یقین ہے کہ عمران خان کو بھی یہ دن بہت جلد دیکھنا پڑے گا، اور ہو سکتا ہے وہ بھی بھارتی ایجنٹ اور غدار قرار دے دیے جائیں۔

77ء کے انتخابات میں دھاندلی بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جب تمام سیاسی پارٹیوں نے سڑکوں پر نکل کر بھٹو کی حکومت کو ختم کر کے دم لیا۔ انیس سو نوے میں ملک میں انتخابی دھاندلی کی تاریخ نے ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرایا، اور بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کے لیے اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ، آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی اور حمید گل نے تسلیم کیا کہ اسلامی جمہوری اتحاد صرف پیپلز پار ٹی کو شکست دینے کے لیے بنایا گیا اور سرکاری فنڈ سے سیاسی جماعتوں میں رقوم تقسیم کی گئیں۔ اس کھلواڑ کی تفصیل اصغر خان کیس میں کھل کر سامنے آگئی۔ نواز شریف کے لیے جیتنے اور انھیں وزیر اعظم بنوانے کے لیے ایسے ہی رستہ صاف کیا گیا، جیسے آج عمران خان کے حوالے سے الزامات کی بھرمار ہے کہ انھیں وزیر اعظم بنوانے کے لیے ہر طریقہ آزمایا گیا اور آزمایا جا رہا ہے، جس سے ان کے لیے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کا راستہ صاف ہو سکے۔

پھر 1997ء کا الیکشن کسے یاد نہیں، جب میں نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ دیا گیا اور اس بھاری مینڈیٹ کا انتخاب سے پہلے ہی سب کو پتا تھا۔ اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے اپنے دوستوں اور بے نظیر کے مخالفوں پر مشتمل معراج خالد کی قیادت میں ایسی نگران حکومت بنائی جس کا ٹاسک صرف اور صرف بے نظیر کو شکست دے کر نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ دینا تھا۔ اور ایسا ہی ہوا، نجم سیٹھی نے اپنے جیو کے پروگرام میں تسلیم کیا تھا کہ وہ ستانوے کی نگران حکومت کا حصہ تھے اور ان کا ٹاسک نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ دلوانا تھا۔ جب یہ حقیقت ان پر آشکار ہوئی تو انھوں نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔

کرپشن کے خلاف جہاد اور احتساب کا نعرہ بلند ہوا۔ نواز شریف کے خلاف مقدمات جو پیپلز پارٹی کی حکومت نے بنوائے تھے وہ ختم کیے گئے، جب کہ احتساب کمشن قائم کر کے پیپلز پارٹی کے خلاف مقدمات بنائے گئے۔ اس دور میں بھی مخالفین کے خلاف مقدمات بنے گرفتاریاں ہوئیں لیکن چوبیس گھنٹوں میں ان کو ضمانت پر رہا کیا گیا یا پھر اسپتالوں کے وی آئی پی وارڈز میں منتقل کر کے بند کر دیا گیا۔

دو ہزار تیرہ میں تحریک انصاف اور عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور نجم سیٹھی جو پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ تھے ان پر پینتیس پنکچر یعنی پینتیس حلقوں میں دھاندلی کروا کر نواز شریف کو جتوانے کا الزام لگایا، پر ثابت کچھ نہ کر سکے۔

آج بھی وہی صورت احوال ہے، پر آج الزام لگانے والے وہ ہیں جو اس بد ترین نظام سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ انتخابی مہم میں صرف عمران خان ہی میدان میں نظر آئے، نواز شریف کے خلاف انتخابات سے چند دن پہلے فیصلہ دے کر جیل بھیج دیا گیا اور وہ اس طرح اپنے ووٹرز سے ووٹ کی اپیل نہ کر سکے۔ شہباز شریف انتخابی مہم چلانے میں بری طرح ناکام رہے؛ میڈیا نے عمران خان کو بھرپور کوریج دی جب کہ باقی جماعتوں کو یا تو کم کوریج دی یا پھر سرے سے نظر انداز کیا۔ کس کے کہنے پر ایسا ہوا، اس کی تحقیقات ہونی چاہے۔

میں نے انتخابات سے پہلے ہی انتخابات کے لیے لگائی گئی سرکاری مشینری کی نا اہلی اور ان کے جانب دار ہونے کی نشان دہی کر دی تھی، اور آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ تمام تر صورت احوال کی اصل ذمہ دار الیکشن کمیشن اور ان کی لگی ہوئی سرکاری مشینری ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کا گھناونا کھیل آج بھی جاری ہے، نہ جانے نیا پاکستان کیسے بنے گا اور کب بنے گاَ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).