آو سب مل کر بسم اللہ کریں



میں کبھی عمران خان کے حوالے سے کسی رومانی کم زوری کا شکار نہیں ہوا۔ میں نے خان صاحب میں کبھی نکیتا خروشیو یا میخائل گورباچوف ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ خان صاحب کے حق میں پاکستان کی اکثریت نے اپنا فیصلہ سنایا ہے؛ ہمیں چاہیے کہ اس کا حترام کریں۔ پاکستان کی عوام نے ایک ایسے وقت میں خان صاحب کے کندھوں پہ یہ بوجھ ڈالا ہے، جب ملکی حالات دگرگوں ہیں، بیرونی قرضے ملکی معیشت کے لیے سائرن ہوئے ہیں۔ خان صاحب اگر ملک کو ان مسائل سے نکالنے میں کام یاب ہو گئے تو خان صاحب زیادہ تو نہیں کہہ سکتا، نکیتا خروشیو بن ہی جائیں گے۔

نکیتا خروشیو متحدہ روس کا اسٹالن کے بعد دوسرا صدر تھا، جو سرد جنگ کے انتہائی ایام اور پہلے عشرے میں روس کی کشتی کو چلا رہا تھا۔ اس سے کمال مہارت سے معاملات کو چلایا۔ کیوبن میزائل کرائسز گوگل کر کے نکیتا کے اعصاب تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جو لوگ ان کو نہیں جانتے ان کے لیے اتنا ہی کہ وہ کمال بندہ تھا۔ اس نے اسٹالن کو مرنے نہیں دیا۔ اس نے عالمی منظر نامے پہ روس کا نیا چہرہ متعارف کروایا۔ اس کے کئی محاسن ہیں احاطہ تحریر میں اتنی گنجائش نہیں۔

خان صاحب کا پہلا امتحان اپنے جوار میں تشکیل دینے والی شوری ہے۔ میاں صاحب کی تباہی کی ایک وجہ تو ان کی شوری تھی۔ میاں صاحب کے نفس کو ان کی ذاتی توصیف سے سہولت ملتی تھی اور اگر کسی کو یاد ہو تو ایک بار ایبٹ آباد جاتے ہوئے میاں صاحب کے استقبال میں ہیلی نے ان کی راہ پہ پھول نچھاور کیے تھے۔ اگر انسان کا نفس ان چیزوں کا شکار ہو جائے تو پھر مالشیے اس کی طبعیت کو لبھانے کے لئے بے جا توصیف کا اہتمام کرتے ہیں۔

سیاست دان تب لیڈر بنتا ہے جب وہ خوشامدیوں کو اپنے جوار میں جگہ نہ دے۔ لیڈر اگر توصیف کا قائل ہو جائے تو رعایا کے لیے تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ خدا کرے خان صاحب کے جوار میں یہ ماحول پروان نہ چڑھے۔ جو لوگ بشری کم زوریوں کا شکار ہوتے ہیں ان کے نفس کو ایسی چیزوں سے سہولت ملتی ہے۔ عوام نے خان صاحب کو اعتماد کا ووٹ ضرور دیا ہے لیکن خان صاحب کو نہیں بھولنا چاہیے کہ شاید شاعر نے اسی لمحے کے لیے ہی کہا تھا کہ جو بھی نکلا تیرے کوچے سے پریشا ن نکلا۔

خان صاحب کو اساطیر کے قصے ہارون رشید صاحب سے یا حسن نثار صاحب سے سن لینے چاہیں۔ یہ قوم اور یہ نظام جس توقیر سے داخل کرتا ہے اسی بے تو قیری سے نکالتا بھی ہے۔ یہاں سے جانے والوں کی ایک داستان ہے داستان غم خان صاحب کو دوسروں کی حماقتوں سے سیکھ کر اس ایوان میں قدم رکھنا چاہیے۔ میری شدید خواہش ہے ہارون رشید صاحب اس رات مسلسل خان صاحب کو پہلوں کے قصے سنائیں اور ان کی حماقتوں کوایک صفحے پہ موٹا موٹا لکھ کر خان صاحب کے ٹیبل کے شیشے کے نیچے رکھ دیں۔

عوام چاہتے ہیں کہ ان کے حالات بدلے جائیں۔ جیسے بھی انتخابات ہوئے لیکن خدارا اس بات کو مت بھولیں کہ کراچی سے اوگی تک تک خان کی حمایت میں قافلے نکلے ہیں۔ کراچی اور سندھ میں اگر عمران کے نام پہ ووٹ پڑے ہیں تو ہمیں عوام کے ووٹ کو عزت دینی چاہیے۔ دھاندلی ہر الیکشن میں حسب بساط ہوتی ہے۔

کاش ہم سب مل کر اس ملک پہ احسان ہی کر سکتے۔ ہمیں سیاسی تعصبات نے اتنا بانٹ دیا کہ ہم اس ملک سلامتی کے دشمن بن گئے ہیں۔ کے پی کے نے اگر خان کو پہلے سے زیادہ پذیرائی دی ہے تو ہمیں ان کے تجربے ہی پہ یقین کر لینا چاہیے۔ پہلی سیاسی جماعتیں کوئی کرشمہ نہیں دکھا سکی ہیں، ان کی استعداد نہیں ہمیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی؟

میری دست بستہ گزارش ہے کہ ہم ایک سال کے لیے سب تفرقات کو چھو ڑ کر صرف پاکستانی ہو جاتے ہیں۔ آئیں ہم پاکستان کا سوچیں۔ کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ کیا ہم اپنے تعصب اور نفرت کو صرف ایک سال کے لیے بھی اس ملک کی خاطر ترک کرنے کو تیار نہیں؟ کیا ہم سیاسی رواداری کا اتنا سا مظاہرہ بھی نہیں کر سکتے؟ کیا ہم خان صاحب کی طلسم افروز بصیرت کو ایک دن بھی دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے؟

خان صاحب اگر آپ روایتی سیاست دان بن گئے توآپ نواز شریف سے برے ثابت ہوں گے۔ اگر آپ نے اس قوم کا مورال ہائی رکھا اور آپ ایڈونچر کرتے رہے تو یقین جانیے کہ ہم سالوں کا سفر مہینوں میں کر لیں گے۔ کے پی کے کے تجربات کو بروے کار لائیں۔

خان صاحب میاں نواز شریف صاحب اور ان سے پہلوں نے اپنی مخالفین کی تجربہ گاہ بنا کر اس ملک کو چلایا اور ناکام ہوئے۔ انھوں نے ریاستی مشینری کو مخالفین سے انتقام کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے اس ملک کو ذاتی کاروبار جتنی توجہ بھی نہیں دی۔ انھوں نے اپنا حق سمجھ کر حکومت کی۔ ان کا اس ملک سے اقتدار کا رشتہ تھا محبت کا نہیں۔ خان صاحب آپ کا آدھا بوجھ آپ کی ٹیم اٹھا سکتی ہے بشرط یہ کہ صاحب استطاعت ہو۔ آگے آپ کی مرضی۔ اﷲ آپ کو پاکستان کا نکیتا خروشیو بننے کی صلاحیت دے اس دعا کے ساتھ قلم رکھتا ہوں۔

از راہ تفنن خان صاحب کو چودھری نثار کے وہ خدشات بھی سن لینے چاہیں، ایوان میں قدم رکھنے سے پہلے جنھیں وہ اور باقی کوئی دو لوگ جانتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).