کیا اسد عمر کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ بھی کوئی آپشن ہے؟


کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ موجود ہے جس کی بڑی وجہ چین سے مشینری کی برآمدات اور کُل ایکسپورٹ کے مقابلے میں کُل امپورٹ کا زیادہ ہونا ہے۔

بیلنس آف پیمنٹ (balance of Payment) سے مراد فارن کرنسی جیسے ڈالر کا (مثال کے طور پر ایکسپورٹ کی مد میں) ملک میں آنے اورملک سے جانے (مثال کے طور پر امپورٹ کی مد میں ) کا حساب کتاب ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں دنیا بھر سے ایکسپورٹ کے بدلے، پاکستانی مہاجرین کی Remittance اور دیگر ذرائع سے کل ایک سو ڈالر آتے ہیں جبکہ پاکستان کو امپورٹس، قرضوں کی ادائیگی اور دیگر ادائیگیوں کے لئے 110 ڈالر کی ضرورت ہے۔ یہ 10 ڈالر کہاں سے آئے گا؟

یہ مسئلہ ان ملکوں کے لئے دردسر ہوتا ہے جو اپنی کرنسی کو کنٹرول کر کے رکھتے ہیں اس لئے پاکستان کو ریزرو (Reserve ) بھی رکھنے پڑتے ہیں کہ جب ادائیگیاں (Payment ) آمد (Receipts ) سے زیادہ ہو جائیں تو انہیں استعمال میں لایا جائے۔ امریکہ اپنی کرنسی کو ایک نمبر پر باندھ کر نہیں رکھتا اس لئے ریزرو رکھتا ہی نہیں، ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت یہی کرتی ہے۔

اگر چینی سرمایہ کاری پاکستان میں جاری رہتی ہے جس کی مد میں مشینری کی امپورٹ ہوتی رہے گی اور ہمیں اس مشینری کے بدلے فارن کرنسی میں چین کو پیمنٹ بھی کرنا ہو گی، یا چین سے جو قرضہ لیا جا رہا ہے اس کی ادائیگیاں ہوں گیں، یا ایکسپورٹ بدستور کم رہے گی۔ اس وقت تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی پریشر میں ہی رہے گی اور اسے گرنے سے بچائے رکھنا بہت مشکل ہو گا۔

اسی لئے دو سال قبل ہی آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی تھی کہ اگر سی پیک کے بدلے میں چینی سرمایہ کاری قرضوں کی صورت میں پاکستان میں ہوتی ہے تو پاکستان جب چین کو قرض واپسی کی ادائیگیاں کرنے لگے گا تو فارن کرنسی کہاں سے لے گا؟ یوں پاکستان بیلنس آف پیمنٹ بحران کا سامنا کرے گا جو اس کے لئے مینج کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

اسد عمر میری معلومات کے لئے کینزین معیشت سے متاثر ہیں۔ اگر وزیرخزانہ بن جاتے ہیں تو، اس لئے وہ اخراجات کو بڑھانے کے منصوبے پر کام کریں گے۔ شاید بارہ ارب ڈالر کی IMF سے درخواست (زیادہ امکان یہ ہے کہ ملیں گے پانچ چھ ارب ڈالر ہی، وہ بھی قسطوں میں ) کا مقصد شاید اگلے پانچ سال کے لئے بیلنس آف پیمنٹ کو متوازن رکھنا اور ترقیاتی اخراجات میں اضافہ ہے۔

اسد عمر کے پاس درج ذیل تراکیب ہیں بیلنس آف پیمنٹ بحران سے نمٹنے کے لئے :
۔ امپورٹ پر پابندیاں لگا دی جائیں (یہ ناممکن ہے )
۔ سی پیک منصوبہ بند کر دیا جائے۔ (یہ ناممکن ہے )

۔ ایکسپورٹ میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے۔ (پاکستانی معیشت کے تناظر میں اس کا زیادہ انحصار گورنمنٹ پالیسیوں پر کم بلکہ اچھے موسم کے نتیجے میں فصلوں خاص طور پر کپاس و چاول کی اچھی کاشت، اور عالمی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات جیسے ٹیکسٹائل وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ پر زیادہ ہے۔ میری رائے میں ایکسپورٹ میں بہت زیادہ اضافہ ممکن نہیں )

۔ حکومت فارن کرنسی کی ٹریڈنگ کو اپنی تحویل میں لے لے۔ (یہ انتہائی فرسودہ نسخہ ہے، ایک بار نواز شریف دور میں نافذ کیا گیا تھا جس کے انتہائی برے نتائج نکلے تھے۔ )

۔ یورو بانڈ جیسے پروڈکٹ عالمی مارکیٹ میں پیش کیے جائیں۔ (پاکستان ایک رسکی ملک ہے اس کی دنیا کی فنانشل مارکیٹ میں اچھی ریٹنگ نہیں، اس لئے اچھے ریٹ کی توقع بہت کم ہے۔ شوکت عزیز دور میں اس طریقہ پر عمل ہوا تھا۔ ویسے بھی اس سے بہت زیادہ فنڈ حاصل کرنا ممکن نہیں۔ تیسرا اس میں شرح سود آئی ایم ایف کے مقابلے میں زیادہ ہی پڑے گا )

۔ آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں جیسے ایشین ڈویلپمنٹ بنک سے قرض لیا جائے۔ (ان کے پاس دینے کو اتنے زیادہ ڈالر نہیں ہوتے دوسرا ان کی شرح سود بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف سب سے سستا ہے۔ چینی بنک سے بھی پاکستان نے جو قرض لیا ہے وہ آئی ایم ایف سے زیادہ مہنگا ہے )

۔ صرف اتنا قرض لیا جائے جتنا ضرورت ہے جبکہ باقی ملکی اخراجات کے لئے سادگی (Austerity ) اپنائی جائے۔ ( موجودہ گورنمنٹ یہ نہیں کرے گی۔ اس نے ووٹ لینے ہیں پانچ سال بعد اور ان کی کوشش ہو گی کہ مسلم لیگ ن سے زیادہ نہ سہی ان کے برابر ترقیاتی اخراجات ضرورکیے جائیں۔ دوسرا جیسا کہ میں نے عرض کیا اسد عمر کینزین معیشت سے متاثر ہے اس لئے معاشی ترقی کے لئے بجٹ اخراجات میں اضافہ کو وہ پسند کرے گا )۔

ذاتی طور پر میں آزاد کرنسی کا حامی ہوں کہ فارن کرنسی کی ادائیگیوں اور آمد یعنی ڈیمانڈ اور سپلائی کو طے کرنے دیا جائے کرنسی ریٹ کو۔ اور بجٹ کو متوازن رکھا جائے یعنی خسارے کا بجٹ نہ چلایا جائے۔ مگر پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں ان تجاویز کی زیادہ پذیرائی نہیں۔

اسد عمر جمہوری طور پر منتخب وزیر خزانہ ہوں گے اگر نئی آنے والی حکومت ان کو منتخب کرتی ہے تو اس لئے انہیں حق حاصل ہے کہ جس طرح معاشی منصوبہ بندی کریں۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ پاکستانی معیشت کا اکنامک مینجر بننا آسان نہیں۔ تحریک انصاف اگر حکومت بناتی ہے تو اسے بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا اور انتہائی مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan