میں نے کراچی بدلتا دیکھا


2018 کے عام انتخابات کے دوران میری نگاہوں کے سامنے 11 مئی 2013 کا دن گھومتا رہا۔ انتخابات کے نتائج ’ہم نے پل بھر میں نصبیوں کو بدلتے دیکھا‘ کے مصداق آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے عام انتخابات 2013 میں کراچی سے 17 جبکہ سندھ بھر سے 36 نشیتں حاصل کی تھیں۔

دوسری جانب ہم سب کے علم میں ہے کہ 2013 میں تحریک انصاف نے 1 سیٹ حاصل کی تھی جبکہ حالیہ انتخابات میں ان کی تعداد 14 ہوگئی ہے۔

25جولائی 2018 کو بڑے بڑے بت پاش پاش ہوئے۔ پاکستان کے دیگر شہروں سمیت کراچی کے مختلف علاقوں کے ساتھ لیاری میں 50 سالہ سحر ٹوٹا۔ پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری میں بلاول بھٹو زرداری کو شکست کا سامنا ہوا۔ تحریک انصاف درجہ نے میدان مارا جبکہ عوامی جماعت کو اہلیان لیاری نے درجہ سوئم پر فائز کیا۔

ماضی میں کراچی وہ شہر تھا جہاں امیدوار لاکھوں کی تعداد میں ووٹ حاصل کرتے تھے تاہم حالیہ انتخابات میں یہ صورتحال بھی یکسر تبدیل نظر آئی۔ اب یہاں امیدوار ہزاروں کی تعداد میں ووٹ لے کر بھی کامیاب قرار پائے ہیں۔ یہ بات بھی ریکاڈر کا حصہ ہے کہ 2013 میں نیبل گبول (جو جیالے سے ساتھی اور اب پھر جیالے بن گئے) ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرنے پر حیران تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے پارٹی ذرائعوں سے اپنی حیرت کا اظہار کیا تو انہیں جواب ملا ’بھائی‘ لاکھوں پر ہی خوش ہوتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق کراچی سے تقریبا 11 لاکھ ووٹ پاکستان تحریک انصاف جبکہ تحریک لیبک پاکستان نے 3 لاکھ 78 ہزار عوامی رائے حاصل کی۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کیا ٹی۔ ایل۔ پی آنے والے وقتوں میں روشنوں کے شہر میں اپنے حصے کی شمع روشن کر پائے گی؟

35 سال پرانے شہری جانتے ہیں یہ شہر طویل عرصے کے باوجود بھی کسی ایک کا نہیں رہا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں جماعت اسلامی کا طوطی بولتا تھا۔ پھر ایم کیو ایم نے اس سحر کو توڑا۔ 1985 کے نشتر پارک کے جلسے نے کراچی کی سیاست کو نیا موڑ دیا۔ 1988 کے بلدیاتی انتخابات میں فاروق ستار کی جیت نے سب کو حیران کردیا تھا۔ اب 35 سال بعد بابائے قوم کے شہر کی سیاست میں ایک بار پھر ’تبدیلی‘ آگئی ہے تاہم اس ’تبدیلی‘ کو دیگر ’تبدیلیوں‘ کے لئے تیار رہنا چاہیے کیونکہ کراچی زیادہ عرصے تک کسی ایک کا نہیں رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).