نئے پاکستان کے پرانے باسی


27 جولائی 2018:

آج صبح آنکھ کھلی تو طبیعت بہت ہلکی پھلکی محسوس ہوئی۔ اور کیوں نہ ہوتی۔ آج میری آنکھ نئے پاکستان میں جو کھلی تھی۔ میں دھیمے سروں میں گنگنا رہا تھا ”بنے گا نیا پاکستان بنے گا نیا پاکستان“۔

پرسوں 25 جولائی تھی۔ بدھ کا دن تھا اور پاکستان میں عام انتخابات تھے۔ میں صبح پونے آٹھ بجے شیر کی طرح گھر سے نکلا۔ تیر کی طرح پولنگ اسٹیشن پر گیا۔ بیلٹ پیپر حاصل کر کے لبیک کا نعرہ لگایا اور بلے پر مہر لگا آیا۔

یہ مہر محض ایک مہر نہیں تھی بلکہ نئے پاکستان کی تعمیر میں لگنے والی ایک قیمتی اینٹ تھی۔ ایسی ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ اینٹیں لگیں تو تب کہیں جا کر نئے پاکستان کی تعمیر کا آغاز ہوا۔

نئے پاکستان میں توقعات کا تخمینہ زیادتی کی حدوں کو چھو رہا تھا۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف نے تینوں نشستیں جیت لی تھیں لہٰذا امید تھی کہ نئے پاکستان کا ماڈل سب سے پہلے اسلام آباد میں دیکھنے کو ملے گا۔

دفتر کے لیے نکلتے ہوئے گھر سے موٹر سائیکل نکالی تو ہیلمٹ بھی سر پر دھر لیا۔ خیال یہ تھا کہ نئے پاکستان میں قوانین کی پابندی کرنا ہو گی۔ یہ بھی گمان تھا کہ تحریک انصاف کو ووٹ دے کر کامیاب کروانے والے نئے پاکستان کے لیے پرجوش ہوں گے چناچہ گلیاں اور سڑکیں صاف ہوں گی اور یقیناً پرانے پاکستان کی پرانی عادتوں کے برخلاف نئے پاکستان کے باسی گلیوں سڑکوں میں کچرا پھینکنے سے باز آ چکے ہوں گے۔

ابھی موٹر سائیکل پر سوار ہی ہوا تھا مگر کک نہیں لگائی تھی کہ نظروں کے سامنے پرانے پاکستان کا ایک منظر نمایاں ہو گیا۔ تین گھر چھوڑ کر جو مکان واقع ہے اس کی اوپر والی منزل سے ایک پلاسٹک کا تھیلا فضا میں بلند ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے قائمہ زاویہ بناتا ہوا عین گلی کے بیچوں بیچ آ گرا۔ گرتے ہی تھیلا پھٹ گیا اور اندر موجود کچرا سڑک پر پھیل گیا۔ اس کچرے میں بچوں کے پیمپرز سمیت ایسی اشیا موجود تھیں جن کے بارے میں لکھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ خود سمجھ دار ہیں۔

ناچار گلی کے دوسرے کونے کا رخ کیا۔ دل میں یہ خیال آیا کہ شاید اس گھر کے مکینوں نے کسی اور جماعت کو ووٹ ڈالا ہو گا۔ گلی سے نکل کر سوسائٹی کی مین روڈ پر چڑھا تو روڈ خالی تھی۔ ذرا آگے چل کر ایک چوک آتا ہے۔ ابھی چوک پر پہنچا ہی تھا کہ دائیں ہاتھ سے ایک گاڑی آتی دکھائی دی۔ اس گاڑی پر تحریک انصاف کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ دل خوشی سے بھر گیا۔ قریب تھا کہ میں پرجوش انداز میں گاڑی والوں کو ہاتھ ہلا کر مبارک باد دیتا کہ گاڑی کی کھڑکی میں سے ایک زنانہ ہاتھ باہر نکلا اور ایک نیسلے پانی کی خالی بوتل اچھلتی ہوئی سڑک پر گری اور لڑھکتی چلی گئی۔ میں مارے صدمے کے اس گاڑی کو دیکھتا ہی رہ گیا۔

دفتر کے راستے میں ایک ٹریفک سگنل پر رکا۔ تمام گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ترتیب سے قطار در قطار ٹریفک سگنل کی لال بتی پر رکی ہوئی انتظار کر رہی تھیں کہ کب کھمبے کی بتی سبز ہو اور کب وہ آگے بڑھیں کہ اتنے میں مخالف سمت سے آندھی اور طوفان کی مانند آتی لینڈ کروزر پر نظر پڑی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ لینڈ کروزر سگنل کی سرخ بتی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چوک کے درمیان میں پہنچ گئی۔ بریکوں کی زوردار چرچراہٹ نے فضا میں سنسنی پھیلا دی۔ دائیں سے آنے والی گاڑیاں دھچکے سے رکیں اور لینڈ کروزر تیر کی مانند ان کے آگے سے نکل گئی۔ دور جاتی گاڑی کے عقبی شیشے پر اسد عمر اور عمران خان کی شکلیں منہ چڑا رہی تھیں۔

لینڈ کروزر کی تقلید میں ہماری والی سائیڈ سے بھی موٹر سائیکلوں نے سرخ بتی پر موٹر سائیکلیں آگے بڑھا دیں۔ میں سڑک پر کھڑا اپنے دائیں بائیں سے گزرتی موٹر سائیکلوں کو دیکھ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے زوردار ہارن سنائی دیا۔ مڑ کر دیکھا تو ایک سیاہ گاڑی والا مجھے آگے بڑھنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ میں نے اس کی توجہ سرخ بتی کی جانب کروائی تو اس نے ایک ناقابل اشاعت اشارہ کرتے ہوئے مجھے سرخ بتی کی پروا نہ کرنے اور موٹر سائیکل آگے بڑھانے کا اشارہ کیا۔ میں نے انکار کیا تو وہ گاڑی کے انجن کو ریس دیتا ہوا میرے قریب آ گیا گویا مجھے ڈرا رہا تھا کہ اگر میں نے موٹر سائیکل آگے نا بڑھائی تو وہ مجھے کچل کر بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی اثنا میں اشارہ کھل گیا اور میں نے ڈرتے ڈرتے موٹر سائیکل آگے بڑھا دی۔ ابھی چوک پار بھی نہ ہوا تھا کہ پیچھے والی گاڑی زوں کر کے پاس سے نکل گئی اور میرے کانوں میں اڑتی اڑتی آواز پڑی ”پرے وڑ پ۔ ۔ ۔“

ابھی اس ناقابل اشاعت گالی کے صدمے سے نکلا بھی نا تھا کہ ایک گاڑی کی کھڑکی سے مکئی کا ادھ کھایا بھٹا تیرتا ہوا نکلا اور میرے آگے سے ہوتا ہوا سڑک پر گرا۔ دوسری گاڑی سے ٹشو پیپر باہر آ رہا تھا اور تیسری گاڑی سے ایک صاحب آخ تھو کر رہے تھے۔

مجھ پر اداسی کا غلبہ ہو گیا۔ ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ووٹ رائیگاں جاتے محسوس ہوئے۔ تبدیلی کے خواہشمند خود کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ پرانے باسیوں کے ساتھ نیا پاکستان کیسے بن سکتا ہے؟

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad