عمران خان زرداری کو اپنا لیں



عمران خان زرداری پر ماضی میں شدید تنقید اور چند پارٹی رہنما‎ؤں کے ناقص سیاسی مشوروں کی وجہ سے زرداری کو اپنانے سے گریزاں ہیں۔ ایک طویل ترین مشق کے ذریعے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے پیچھے پارٹی رہنماؤں کو ہلکان کر رہے ہیں۔ ان کے بے جا ناز نخروں کے آگے سر تسلیم خم کر رہے ہیں۔ لیکن دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ زرداری کو صدر بنا کر پیپلز پارٹی کے ساتھ اک مستحکم حکومت بنا لیں۔

‎عمران خان خود پارٹی میں کئ سیاسی لوٹے اور پھٹیچر ریلو کٹے اکٹھے کر چکے ہیں۔ علی الاعلان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ فرشتے کہاں سے لے آئیں۔ پھر وہ انتخابات کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ وہ پیرس نہیں بلکہ پاکستان میں انتخابات لڑ رہے ہیں۔ اگر انھیں سیاست میں زمینی حقائق کا ادراک ہو چکا ہے۔ تو وہ حکومت بننے کے حوالے سے زمینی حقائق سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے؟

عمران خان بے شک ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، بلوچستان عوامی پارٹی اور آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملا لیں۔ ان کو حتی الامکان سیاسی حصہ بھی دے دیں، لیکن وہ بے جا تنگ ہونے، تبدیلی کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور مستحکم حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کریں۔ اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود اور ان کی پارٹی پاک صاف اور زرداری اور پیپلز پارٹی برائی کا منبع ہیں تو وہ بالکل غلط اور خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ کوئی بھی نہ تو مجسم اچھائی ہوتا ہے اور نہ ہی مجسم برائی۔

پیپلز پارٹی اک وفاقی سوچ رکھنے والی پارٹی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ساتھ ملانے سے تحریک انصاف کو آئین سازی میں خاصا فائدہ پہنچے گا۔ آئین سازی میں پیپلز پارٹی کا خاصا تجربہ اور اپروچ بہتر ہے۔ تحریک انصاف کے نئے خون اور پیپلز پارٹی کے تجربے سے جمہوریت مزید مستحکم اور ملک کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ دوسرا بڑا فائدہ تحریک انصاف کو مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کی حکومت کے خلاف سا‎زشوں سے نجات مل سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کا سیاسی گٹھ جوڑ سازش اور فساد کا وہ آشیانہ ثابت ہوگا کہ اگلے پانچ سال تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ دنیا تماشا دیکھے گی۔ زرداری صاحب کو اپنا لیں تاکہ ان کی، زرداری صاحب اور عوام کی مسکراہٹیں برقرار رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).