بیٹی سے نجات کا نادر نسخہ


دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے نوجوانوں کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا رہتا ہے، تاہم ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل بالخصوص لڑکیوں کو درپیش مسائل کی نوعیت پوری دنیا سے الگ ہے۔ یہاں انھیں تعلیم، شعور اور ترقی کے یکساں مواقع کے لیے جدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنے وجود سے جڑے “بوجھ” کے تصور کو بھی جھیلنا پڑتا ہے۔

بیٹیوں کو ایک مسئلہ قرار دینے والی جاہلانہ سوچ صرف والدین ہی کی نیندیں حرام کرنے کا باعث نہیں بنتی بلکہ اس کے نتیجے میں خود بیٹیاں بھی اپنے آپ کو مجرم تصور کرنے لگتی ہیں۔ جی ہاں مجرم۔ وہ بھی اس بات پر جو نہ تو کوئی جرم ہے اور نہ ہی جس پر کسی کا کوئی اختیار ہے۔

کیا رب ذوالجلال پیدا کرنے سے پہلے بندے سے پوچھتا ہے کہ وہ اپنے لیے کس جنس کا انتخاب چاہتا ہے، یا بیٹی کو بوجھ سمجھنے کا فرمان اس نے جاری کیا تھا۔ ایسا ہرگزنہیں ہے۔ تو پھر ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو اس مسلسل ذہنی اذیت سے کیوں گزرنا پڑتا ہے۔

جس اسلام کی حفاظت کے لیے ہم مضبوط قلعے کی تعمیر کے دعوے دار ہیں، اس اسلام کے خود ساختہ محافظ بننے کی بجائے اگر ہم اس پر عمل کرنے والے بن جاتے تو ہماری بیٹیاں دنیا کی خوش و خرم ترین ہستیاں ہوتیں۔ اگر ہم رب کریم کے مقدس کلام کی لاج رکھنے والے ہوتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک سنتوں پر کھوکھلی نعرے بازی کی بجائے ان پر عمل کرنے والے ہوتے تو ہم جانتے کہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے بیٹی سے کس درجے کی محبت کی تھی، مگر ہم گلے پھاڑکر رٹے رٹائے نعرے لگانے والے وہ وحشی لوگ ہیں جو دین کی من پسند تشریح پر ایک دوسرے کو ادھیڑ کر رکھ دینے کے لیے تو تیار رہتے ہیں، پر اسی دین کے مطابق کبھی بیٹی کو دل سے خدا کی رحمت تسلیم نہیں کرتے۔

باشعور گھرانوں میں بھی والدین جانے ان جانے اپنے ذہن پر موجود “بوجھ” کو اپنی بیٹیوں تک منتقل کر جاتے ہیں۔ ایسے گھروں میں یہ معاملہ لڑکی کے شعور کی منزلوں تک پہنچتے یا کم از کم اس کی تعلیم مکمل ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ والدین کو اس کی شادی کی فکر تو اس کی پیدائش سے ہی لاحق ہو جاتی ہے لیکن بیٹی کے کالج یا یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہی یہ فکر تمام تفکرات پر حاوی ہو جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے کے مقرر کردہ خوش قسمتی کے معیار کے مطابق اگر تو لڑکی کی فورا شادی ہو جائے تو پھر تو ٹھیک دوسری صورت میں لڑکی اسی گھر میں جہاں اس نے پرورش پائی ہوتی ہے بتدریج اجنبی اور پھر اپنے ہی خول میں بند ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

یہ صورت احوال اس کی ذہنی صحت اور زندگی کے معیار پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر ایسی جگہ بیٹھ کر لگایا جا سکتا ہے جہاں آپ کی حیثیت ایک اضافی فرد کی ہو اوراس مقام کے ماحول میں بہتری کے لیے آپ کے وہاں سے چلے جانے کو ضروری سمجھا جائے۔ آپ یقیناً ایسی جگہ پر ایک منٹ بھی رکنا پسند نہیں کریں گے، لیکن زرا سوچیں کہ آپ کے دل و دماغ کی کیفیت کا عالم اس وقت کیا ہو جب وہاں سے اٹھ جانا بھی آپ کے اپنے اختیار میں نہ ہو؟

بروقت اور کام یاب شادی بلا شبہ زندگی کے سفر کا خوش گوارترین مرحلہ ہوتا ہے اور کسی بھی منطق یا فلسفے کی بنیاد پر اسے غیر اہم قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن پھر بھی اگر کسی بھی وجہ سے کسی فرد بالخصوص لڑکی کی “جلد” شادی نہ ہو پائے تو اس حقیقت کو کسی سانحے کی شکل دے دینا بھی کون سی عقل مندی ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔

والدین اور خود نوجوان خواتین کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خوشی اور اطمینان کے لیے زندگی کے صرف ایک ہی پہلو کو مد نظر رکھنا درست طرز عمل نہیں ہے۔ اگر ہم سفر کا ساتھ ملنے میں دیر ہورہی ہو تو اس وقت کے آنے تک ذہن کو اذیت میں رکھنے کی بجائے اپنی سوچ کو کسی نئی صلاحیت یا نوکری کے حصول، چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرنے یا لکھنے لکھانے جیسے مفید مقاصد پر مرکوز کیا جا سکتا ہے۔ ایسی مصروفیات نہ صرف ذہن کو مطمئن رکھنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہیں، بلکہ اکثر اوقات یہ پیشہ وارانہ صلاحیتیں زندگی کے ساتھی سے بڑھ کر ساتھ نبھا جاتی ہیں۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa