جہانگیر ترین کی پھرتیاں اور نیا پاکستان



شعیب اختر، یوسین بولٹ، رونالڈو رافیل نڈال کی ہھرتیاں اور تیزیاں ہی تھیں، جن کی وجہ سے ان تمام کے ناموں کے ساتھ ورلڈ رِکارڈ ہولڈر کا لفظ لگ گیا اور یہ تمام لوگ دنیا میں پہچانے جانے لگے۔ اس دنیا کی کوئی بھی جنگ یا کھیل جیتنے کے لئے داؤ پیچ اور وقت کی تیزی سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ اگر آپ شطرنج کھیل رہے ہوں تو جتنا جلدی آپ کا دماغ کام کرے گا اور جتنی جلدی آپ داؤ پیچ لڑاتے جائیں گے، اتنی جلدی آپ مخالف پہ حاوی ہوتے جائیں گے؛ اس طرح فٹ بال کا میدان ہو یا ٹینس کا ہو کرکٹ کا ہو یا دوڑ کا عالمی مقابلہ ہو جتنی پھرتی اور تیزی دیکھاتے جائیں گے کام یاب ہوتے جائیں گے۔

آج کل میدان سیاست بھی خوب گرم ہے، الیکشن آئے اور آ کے چلے گئے ہیں؛ ہارنے والے ہار کو قبول کرنے سے انکاری اور جیتنے والوں سے جیت سنبھالی نہیں جا رہی ہے۔ ایسے میں سیاستدانوں کی تیزیاں اور پھرتیاں بھی دیکھنے کو ملیں اور کچھہ سیاستدان ابھی پھرتیاں دیکھانے میں مصروف عمل ہیں۔ ماضی میں یہ تیزیاں اور پھرتیاں شہاز شریف صاحب دکھاتے رہے ہیں اور کبھی “شوباز” اور کبھی “ڈرامے باز” کے نام سے پکارے جاتے رہے ہیں مگر آج کل شہباز شریف سے بھی زیادہ تیزی اور پھرتی تحریک انصاف کے (نا اہل) سیاستدان جہانگیر ترین دکھانے میں مصروف ہیں اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو زبردستی پکڑ پکڑ کر اور بہلا پھسلا کر اپنے جہاز میں بٹھا کر عمران خان صاحب کے حضور پیش کرتے جا رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کے سامنے اپنی “بے لوث”وفاؤں کا تذکرہ کر کے ورلڈ رِکارڈ بناتے جا رہے ہیں۔

عمران خان صاحب جیت کر بھی ایسے موڑ پہ کھڑے ہوگئے ہیں، جہاں پیچھے کھائی آگے کنواں والا معاملہ بنا ہوا ہے۔ اگر خان صاحب کسی پارٹی (پی پی پی پی، ایم ایل این) سے اتحاد کر لیتے ہیں تو بھی خان صاحب کو اپنی بات سے پیچھے ہٹنا پڑے گا اور ان کرپٹ لوگوں سے ہاتھ ملانا پڑے گا جن سے ہاتھ ملانے کو خان صاحب گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ اگر خان صاحب اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے تو شاید خان صاحب کا اور ان کے حامیوں کا خواب پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے گا۔ دوسری صورت کے امکان کم ہی نظر آتے ہیں کیوں کہ خان صاحب یو ٹرن تو آنکھیں بند کر کے بھی لے لیتے ہیں، اگر ادھر بھی پاکستان کی بقا کے لئے یو ٹرن لے لیں تو حرج ہی کیا ہے؟

جہانگیر ترین صاحب پارٹی کے ساتھ اس حد تک مخلص نظر آرہے ہیں، کہ اپنے پرائے سب ان کی عظمت کے گن گاتے نظر آرہے ہیں اور ان کی بے لوث محبتوں کے مرید ہوئے بیٹھے ہیں۔ اللہ کرے جہانگیر ترین صاحب کی یہ بے لوث محنت رنگ لے آئے اور نیا پاکستان معرض وجود میں آ جائے۔ اس نئے پاکستان میں جہانگیر ترین صاحب کی نااہلی کا فیصلہ بھی صرف انصاف اور اصولوں کے مطابق ہو، نہ کہ جہانگیر ترین کی بے لوث وفاؤں کو مد نظر رکھ کے کیا جائے۔ اگر ترین صاحب اپنی نااہلی کی سزا کو ان پھرتیوں کی بنا پہ کم کرانے میں کامیاب ہوئے تو یہ قوم سر آنکھوں پہ بٹھانے کے ساتھ ساتھ گرانا بھی جانتی ہے اور اپنے اوپر کئے گئے ظلم کا بدلہ لینا بھی جانتی ہے۔ اگر بدلہ لینا کا یقین نہیں تو پی پی پی اور پی ایم ایل این سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔

جہانگیر ترین صاحب نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے پاکستان کے مختلف بھٹوں سے کچی پکی اینٹیں سستی مہنگی جیسے بھی مل رہی ہیں، اکھٹی کر کے لا رہے ہیں اللہ کرے ترین اور خان صاحب لوگوں کی امیدوں پہ پورا اتر سکیں اور پاکستان دنیا کے نقشے پہ بھی نئے پاکستان کے طور پہ پہچانا جا سکے۔ ویسے ماضی میں “جہاز بھر کے لانے” کا استعمال ہمیشہ غلط اور منفی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ پتا نہیں اس بار جہاز بھر کے لانا پاکستان کے لئے مفید ثابت ہوتا ہے یا نقصان دہ ہوتا ہے۔

میرے خیال میں خان صاحب اور ان کے حامیوں، یعنی فالوورز کو اس حد تک یقین نہیں تھا کہ خان صاحب اس اعلی مقام پہ براجمان ہوں گے ورنہ خان صاحب اس قوم سے اس طرح ناممکن قسم کے وعدے کبھی نہ کرتے جن کو پورا کرنے کے لئے خان صاحب کو پانچ نہیں پچاس سال درکار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).