امن اور امن پھیلانے والے


امن زندگی کی علامت ہے، امن ہی سے قومیں ترقی کرتی ہیں اور عروج پاتی ہیں۔ سورہ قریش میں اللہ تعالی نے اہل مکہ سے اپنی عبادت کا تقاضا ان دو باتوں کو ذکر کے بعد کیا ہے کہ وہ خدا جس نے تمہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور جس نے تمہیں خوف سے محفوظ رکھا کر امن جیسی نعمت سے نوازا اس کی عبادت کرو۔ جس علاقے میں ظلم و بربریت ہو، انسان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہو، وہاں انسان کا رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے وہاں سے ہجرت کا حکم ہے۔

حضرت موسیؑ نے بنی اسرائیل کے ساتھ اور نبی مکرمﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ اسی امن کی تلاش میں ہجرت کی تاکہ آپ سکون سے دینِ اسلام کا آفاقی پیغام دنیاتک پہنچا سکیں۔ اسلام تو امن کی تعلیم کو اتنی اہمیت دیتا ہے کہ حکم ہوا جب مسلمان ایک دوسرے سے ملیں تو السلام علیکم کہیں دوسرا جواب میں و علیکم السلام کہے اس سے مسلمان سلامتی کے پیامبر بن کر دنیا کے سامنے آئیں گے۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات کے پیش نظر پچھلے پنتیس سال میں مسلکی اور مذہبی منافرت کی جو فصل ہمارے ہاں کاشت کی گئی اس نے ہزاروں بہنوں سے بھائی، ہزاروں بچوں سے باپ، ہزاروں بیویوں سے شوہر اور ہزاروں والدین سے ان کے لخت جگر چھین لیے۔

نفرت کی ایسی تجارت اس ملک میں شروع ہوئی کہ الامان و الحفیظ۔ بدامنی صرف لوگوں کو قتل نہیں کرتی یہ پورے معاشرے کو اپنی لپٹ میں لے لیتی ہے۔ دہشتگردی سے سرمایہ کاری رک جاتی ہے جس بے روزگاری جنم لیتی ہے، بے روزگاری ڈاکووں اور چوروں کو پیدا کرتی ہے اور ڈاکے راستوں کو بند کر دیتے ہیں۔ قوم تقسیم در تقسیم کا شکار ہو کر مایوسی کی دلدل میں پھنس جاتی ہے، یہ بات قابل توجہ رہے مایوس قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا بلکہ ووہ زمین پر بوجھ ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اس دہشتگردی میں مذہب ومسلک کو بری طرح استعمال کیا گیا جس سے صدیوں پرانی روایات قصہ پارینہ بن گئیں۔ باہمی احترام، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا، ایک دوسرے کی مدد کرنا، علاقائی بھائی چارے کا اظہار اور اس طرح کی دیگر اقدار یوں غائب ہوئیں کہ رہے رب کا نام۔

بزرگوں کی ہندووں اور سکھوں کے ساتھ دوستیوں کی باتیں گپیں سی لگنے لگی تھیں کیونکہ جب ہم دوسرے مسلمان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے یہ کیسے ممکن ہے کہ گاؤں میں ہندو، سکھ اور مسلمان مل جل کر رہتے ہوں۔ مساجد و مدارس جو اسلام کی پہچان ہیں، جن کی علم و تعلیم کے حوالے سے ناقابل فراموش خدمات ہیں، جو اسلامی تہذیب و ثقافت کے محافظ ہیں اور تحریک پاکستان میں جنہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ کچھ لوگوں نے ذاتی مفادات کے لیے انہی مقدس جگہوں کا استعمال فرقہ واریت کے لیے کیا۔ معتدل رائے رکھنے والے علما، ان کی مساجد اور مدارس انتہا پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنیں۔ اس پوری کشمکش میں پاکستان کو نقصان پہنچا اور بین الاقوامی سطح پر اسلام جیسے پر امن مذہب کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑنے کی مذموم کوششیں کی گئیں۔

ان حالات میں وطن عزیز میں بہت سے اداروں نے امن و سلامتی کے پیغام کو عام کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا ان میں ادارہ امن و تعلیم پاکستان ایک اہم ادارہ تھا۔ جس نے مدارس میں اپنے لیے اعتماد کی فضا کو قائم کیا۔ ہزاروں مدرسہ ٹیچرز کو پڑھانے کے جدید طریقے سکھائے گئے اور امن و تعلیم کے نام سے اسلامی سکالرز سے کتاب لکھوا کر اسے مدارس کے نصاب کا حصہ بنایا گیا تاکہ طلبہ کو آغاز سے ہی امن کا بنیادی سبق دے دیا جائے۔ اسی طرح امام مسجد کو کمیونٹی کا ایک فعال لیڈر مانا گیا اور کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے امن میں اس کے کردار پر ورکشاپس کی گئیں ان ورکشاپس میں بھی ہزاروں علمائے کرام کی تربیت کی گئی اس میں خاص بات یہ ہے کہ وہ علاقے جہاں بین المسالک یا بین المذاہب مسائل موجود ہیں ان میں یہ کام فوکس کر کے کیا گیا۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ میں ادارہ امن و تعلیم کی ایک ورکشاپ میں شریک تھا جس میں پنڈت، پادری، علما اور سکالرز شریک تھےاس ورکشاپ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اس کے بعد کہا گیا کہ اب پنڈت صاحب گیتا سے کچھ پڑھیں گے اس کے بعد پادری صاحب نے کلام مقدس سے کچھ پڑھا اور ایک سکھ نے گرنتھ صاحب کی تلاوت کی۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ الفاظ مختلف تھے لیکن جو کچھ وہاں پڑھا گیا اس کا پیغام ملتا جلتا ہی تھا جس میں پیدا کرنے والے کی حمد اور شکر کی بات کی گئی تھی۔

اس سے مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ہر مذہب کا ماننا والا خالق اور رازق ہستی کی طرف ہی رجوع کرتا ہے۔ پچھلے چند سال میں امن و تعلیم کو بطور مشن اختیار کر کے سینکڑوں لوگوں نے کام کیا ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں کہ جس میں بعض لوگوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا تھا چالیس لوگوں کو امن ایوارڈ دیا گیا۔ اس حوالے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی اسلامی نظریاتی کونسل کے چئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب تھے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایوارڈان بے لوث لوگوں میں تقسیم کیا اور پیغام دیا کہ وطن عزیز میں امن کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔

نفرت کے خریدار زیادہ ہو گئے ہیں ہر طرف اسی کی تجارت ہو رہی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ امن جیسی نعمت سے دور جا چکے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ امن کی بات کی جائے اس کے لیے کوشش کی جائے اور اس کے لیے کوشش کرنے والوں کی قدر کی جائے کیونکہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے ان اشعار پر ختم کرنا چاہوں گا

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).