ایک کھرب پتی لکڑ ہارے کی کہانی


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نودولتیوں کے ملک میں ایک غریب لکڑ ہارا رہا کرتا تھا، اُس کی گزر بسر بہت مشکل سے ہوتی تھی، اُس بیچارے کی غربت کا اندازہ اِس بات سے لگا لیں کہ اُس کے پاس ٹچ سکرین والا موبائل فون بھی نہیں تھا۔ لکڑ ہارا صبح سویرے جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹتا اورشام کو انہیں شہر لاکربیچ دیتا، مشکل سے چار پیسے بچتے۔ لکڑ ہارے کی بیوی بہت صابر عورت تھی کیونکہ اُس کا نام صابرہ تھا، کبھی اُس نے اپنے شوہر کی استطاعت سے بڑھ کرکوئی فرمائش نہیں کی تھی، مہینے میں زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ وہ برینڈڈ کپڑوں یا جوتوں کی فرمائش کرتی اور اگر غریب لکڑ ہارا یہ خواہش پوری نہ کر پاتا تو وہ صبر شکر کرکے دوسرے کمرے میں سو جاتی۔

وقت یونہی گزرتا رہا، کرنا خدا کا یوں ہوا کہ لکڑ ہارے کی بیوی امید سے ہو گئی، اِس خبر نے لکڑ ہارے کو خوشی سے نہال کر دیا، اسے لگا جیسے اب اُس کی زندگی میں رنگ بھر جائیں گے، وہ دن گِن گِن کر بیوی کی ڈیلوری کا انتظار کرنے لگا، لکڑ ہارے کو اِس قدر بے چینی سے اپنے بچے کی پیدائش کا انتظار تھا کہ وہ مقررہ دن سے پہلے اکیلا ہی اسپتال پہنچ گیا۔ ڈاکٹر نے بڑی مشکل سے سمجھا کر اسے واپس بھیجا کہ وہ بیوی کو لے کر آئے۔

قصہ مختصر خدانے دونوں کو چاند سا بیٹا عطا کیا، انہوں نے بیٹے کا نام چاند رکھ دیا۔ بچے کی وجہ سے جہاں لکڑ ہارا بہت خوش تھا وہاں اسے پریشانی بھی تھی کہ اب گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ ایک دن اسی سوچ میں غلطاں وہ لکڑیاں کمر پر لاد کر شہر واپس آ رہا تھا کہ اچانک سڑک پر ایک گاڑی سامنے آ گئی، قریب تھا کہ وہ لکڑ ہارے کو روند دیتی ڈرائیور نے عین وقت پر بریک لگا دی۔ غریب لکڑ ہارے کی جان تو بچ گئی مگر اُس کی ساری لکڑیاں سڑک پر بکھر گئیں۔ گاڑی کا مالک جو شکل سے تو کوئی سمگلر لگتا تھانہ جانے کیوں اسے لکڑ ہارے پر رحم آ گیا، اُس نے لکڑ ہارے کا نہ صرف نقصان پورا کیا بلکہ اسے اپنا کارڈ دے کر کہا کسی دن آ کر مل لے۔ لکڑ ہارے نے کارڈ پڑھا، نام کے نیچے لکھا تھا ’موٹیوویشنل سپیکر‘ ۔

اگلے روز لکڑ ہارا موٹیویشنل سپیکر کی کوٹھی میں پہنچ گیا، ہم اس کا نام دیو جانس کلبی فرض کر لیتے ہیں۔ مسٹر کلبی نے لکڑ ہارے کی زندگی کے بارے میں دو چار سوال پوچھے جس سے اسے اندازہ ہو گیا کہ لکڑ ہارے کوموٹیویشن کی سخت ضرورت ہے۔ مثلاً لکڑ ہارے نے اسے بتایا کہ وہ بہت محنتی، ایماندار اورقناعت پسند ہے، اس کے دل میں کسی قسم کا لالچ نہیں، ایک مرتبہ اس کا کلہاڑا دریا میں گر گیا تھا تو اس کے بدلے میں اسے سونے کا کلہاڑا پیش کیا گیا جسے لینے سے لکڑ ہارے نے انکار کر دیا تو پھر اسے اصل کلہاڑا واپس کر دیا گیا۔

اِس بات کا لکڑ ہارے کو آج بھی پچھتاوا ہے۔ مسٹر کلبی نے لکڑ ہارے کو سمجھایا کہ اب زمانہ بدل چکا ہے، محنت، ایمانداری، قناعت، سب فرسودہ باتیں ہو چکی ہیں، آج کی دنیا میں اگر جینا ہے تو پیسے کمانے ہوں گے اور پیسے کمانے کے لیے محنت سے زیادہ مکاری، ایمانداری سے زیادہ سمارٹنس اور قناعت سے زیادہ حرص کی ضرورت ہے، اُن موٹیویشنل سپیکر وں کا زمانہ گیا جو لوگوں کو کتابی باتیں رٹا کر امیر ہونے کے گُر سکھاتے تھے، اپنے ارد گرد نظر دوڑاؤ اور دیکھو جتنے لوگ امیر ہیں اُن میں سے کتنے تمہاری طرح شرافت کے پُتلے اور کتنے میری طرح شیطان کے پجاری ہیں! اِس روحانی گفتگو کے بعد مسٹر کلبی نے لکڑ ہارے کو کچھ ٹپس دیں اور کہا کہ وہ اندھا دھند اِن پر عمل کرے اور پھر قدرت کا کرشمہ دیکھے۔

لکڑ ہارے نے یہی کیا۔ اُس نے اپنا پرانا مکان بیچا اور تعمیراتی سامان سپلائی کرنے کی چھوٹی سی فرم بنا لی، شروع شروع میں مسٹر کلبی نے اُس کی مدد کی اور چند سرکاری اہلکاروں سے ملوا دیا جنہوں نے اسے چھوٹے موٹے سرکاری ٹھیکے دینے شروع کر دیے، بدلے میں ہمارے ہیرو نے اُن کی مٹھیاں خوب گرم کیں، آہستہ آہستہ ٹھیکوں کی مالیت بڑھنے لگی، وقت گزرتا گیا، لکڑ ہارا دولت مند ہوتا گیا، بات لاکھوں سے کروڑوں تک پہنچ گئی۔

پھر اُس نے ایک نیا کا م شروع کیا، سرکار کی زمین اونے پونے داموں خرید کر اُس پر ہاؤسنگ سکیمیں بنانی شروع کر دیں، اُس کی ڈیزائن کی گئی سکیم سرکاری محکمے فوراً منظور کر لیتے تھے، یہ بات وہ فخریہ کہا کرتا کہ وہ فائلوں کو پہیے لگا دیتا ہے جس کی وجہ سے اُس کا کام کبھی نہیں رُکتا۔ آج وہ ’مُلک ِ نودولتیاں‘ میں ایک کھرب پتی ٹھیکیدار ہے، کامیابی کی ایک عظیم داستان ہے، جس زمین پر ہاتھ رکھ دے وہ اُس کی ہو جاتی ہے، مگر اتنی دولت کے باوجود وہ اپنا ماضی نہیں بھولا، یہی وجہ ہے کہ وہ (حکومت کو پورا ٹیکس دینے کی بجائے ) بھوکوں کو مفت کھانا کھلاتا ہے، بے روزگاروں کو نوکریاں دیتا ہے (بشرطیکہ وہ کسی بڑے عہدے سے تازہ تازہ ریٹائر ہوئے ہوں )، بے دین لوگوں کو نیکی (اور اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی ) کی طرف راغب کرنے کے لیے مسجدیں بنواتا ہے اور لوگوں کو موٹیویٹ کرنے کے لیے ٹی وی انٹرویو دیتا ہے تاکہ لوگ اس کے نقش قدم پر چل کر کامیاب ہو سکیں۔

آپ بھی اگر ایسی کامیابی چاہتے ہیں تو فرسودہ طریقے چھوڑیں اور کامیابی کا یہ تیر بہدف نسخہ اپنائیں، خدا نے چاہا تو چند سال میں آپ بھی ہاؤسنگ اسکیموں کے مالک بن کر ملک کی تقدیر کے فیصلہ سازوں میں شامل ہو جائیں گے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada