زبان سنبھال کے (مکمل کالم)


یہ ہمارے اسکول کے زمانے کی بات ہے، پی ٹی وی پر اشفاق احمد کا ایک ڈرامہ نشر ہوا، نام تھا ’توتا کہانی‘ ۔ ہم نے اردو قاعدے میں طوطا ہمیشہ ط سے پڑھا تھا، اس لیے جب پی ٹی وی پہ ت سے توتا دیکھا تو سمجھ نہ آئی کہ کون سا طوطا ٹھیک ہے۔ بعد میں ایک مرد عاقل نے سمجھایا کہ برخوردار اگر اشفاق صاحب نے ت سے لکھا ہے تو یہی درست ہو گا لہذا اسی پر ایمان لے آؤ۔ ایمان تو ہم لے آئے پر دل میں ایک کانٹا سا رہا کہ ط والا طوطا بھی کچھ ایسا برا نہیں، بلکہ زیادہ با رعب لگتا ہے۔ بعد ازاں جب مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ توتا مقامی زبان کا لفظ ہے جبکہ ط عربی کا حرف لہذا ایک مقامی لفظ کو عربی کا لبادہ پہنانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن میری رائے میں ط سے طوطا اب مستعمل ہے لہذا ایسا لکھنا غلط نہیں، یہ اپنی پسند کی بات ہے۔

زبان و بیان کے یہ چونچلے اب پرانے وقتوں کی باتیں ہیں۔ اب تو ٹی وی پر ایسی ایسی زبان سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے کہ اس کے سامنے اپنی نثر اردوئے معلیٰ لگتی ہے۔ اشتہارات نے تو خیر زبان کا بیڑہ ہی غرق کر دیا ہے، انگریزی الفاظ کی ایسی بھرمار ہوتی ہے کہ بندے کا دل کرتا ہے ٹی وی کی اسکرین توڑ ڈالے۔ نمونہ ملاحظہ کیجیے : ”ونٹر میں ڈرائی اسکن، اس کو چھپاؤ مت، نرش کرو، باڈی لوشن سے، سافٹ اور سموتھ اسکن روزانہ۔“ لاحول ولا قوة۔ واضح رہے کہ میں انگریزی الفاظ و تراکیب کے استعمال کے خلاف نہیں ہوں اور نہ ہی ’آن لائن‘ کو ’برخط‘ کہنے کا شوقین ہوں مگر جو کچھ آج کل کے اشتہارات میں اردو زبان کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے لیے میرے پاس نرم سے نرم لفظ بھی زنا بالجبر ہے۔ ہے۔ زبان کا حسن اس کے درست اور موزوں استعمال میں ہے۔ میں کوئی ماہر لسانیات تو نہیں مگر پھر بھی اپنی سی کوشش کرتا ہوں کہ زبان کی غلطی نہ کروں، لیکن کہیں نہ کہیں لغزش ہو ہی جاتی ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں روانی میں لکھ دیا کہ ’بظاہر یوں لگتا ہے جیسے۔ ‘ حالانکہ ’بظاہر‘ میں ’یوں لگتا ہے‘ شامل ہے۔

اوپر دو لفظ انگریزی کے استعمال کیے، اسکول اور اسکرین۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اس قسم کے انگریزی الفاظ کے ساتھ الف لگانا چاہیے جیسے کراچی والے الف لگاتے ہیں جبکہ اہل پنجاب ایسے الفاظ کو بغیر الف کے سکول، سکرین لکھتے ہیں جو صحیح نہیں۔ میری رائے میں یہ بات درست نہیں۔ اردو کا تعلق زبانوں کی ہند آریائی شاخ سے ہے جو کہ بذات خود زبانوں کے سب سے بڑے خاندان یعنی ہند یورپی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ لسانی خاندان اتنا وسیع ہے کہ اس میں انگریزی، جرمن، ڈچ وغیرہ سے لے کر اردو، فارسی، پنجابی تک سب سما جاتی ہیں۔ کسی بھی زبان میں ہم جو آوازیں منہ سے نکالتے ہیں انہیں دو بڑے زمروں میں بانٹا جا سکتا ہے : واول اور کا نسونینٹ۔ جیسے اردو میں ’لوہا‘ کا لفظ ل (کانسونینٹ ) ، و (واول) ، ہ (کانسونینٹ) اور الف (واول) سے مل کر بنا ہے۔ بعض لفظ ایسے ہوتے ہیں جن میں دو کانسونینٹ ایک ساتھ آ جاتے ہیں، انہیں ’کانسونینٹ کلسٹر‘ کہتے ہیں۔ ایسا کلسٹر اگر لفظ کے درمیان یا آخر میں آئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر شروع میں آ جائے تو اسے initial consonant cluster کہتے ہیں۔ ہمارے نظام تلفظ initial consonant cluster وجود نہیں رکھتا جبکہ انگریزی میں جو کلسٹر ہیں ان میں دو مثالیں لے لیتے ہیں، ایک ’st‘ سٹ کی آواز اور دوسری ’sk‘ سک کی آواز۔

اہل زبان یعنی انگریز جب یہ اس کلسٹر کے الفاظ بولتے ہیں تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور وہ سکول، سکن، سٹریٹ، سٹینڈ، سٹیشن بول دیتے ہیں لیکن کوئی دوسرا اس کلسٹر کے الفاظ اس انداز میں نہیں بول سکتا کیونکہ ہر زبان کا ہر لفظ ہر لسانی گروہ ادا نہیں کر سکتا۔ چونکہ دو جڑے ہوئے کانسونینٹ حروف کی ادائیگی ہمارے لیے ممکن نہیں اس لیے ہم ایک واول آواز کا اضافہ کر کے اس جوڑے کو توڑ دیتے ہیں۔ توڑنے کا یہ عمل دو طرح سے ہوتا ہے۔ پہلے طریقے میں ہم لفظ سے پہلے الف لگا دیتے ہیں اور دوسرے طریقے میں الف لگانے کی بجائے س اور ٹ یا س اور ک پر زبر لگا دیتے ہیں۔ یہ کرتے وقت ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ہم کیا اور کیوں کر رہے ہیں، چونکہ یہ ہماری لسانی مجبوری ہے اس لیے دونوں طریقے درست ہیں، سکن کو الف کے ساتھ اسکن لکھنا بھی اور زبر کے ساتھ سکن لکھنا بھی۔

میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو لسانیات کی بحث میں بور کیا۔ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا، تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ ایک اور غلطی ہم ’ترین‘ کے استعمال میں کرتے ہیں، ترین ہمیشہ فارسی یا عربی تراکیب کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے دولت مند ترین، امیر ترین، غریب ترین کہ یہ فارسی کے الفاظ ہیں لیکن سستا ترین یا مہنگا ترین غلط ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے کوئی بڑا ترین لکھ دے۔ آج کل تو ٹی وی پر ماڈرن ترین بھی سننے کو مل جاتا ہے۔ اسی طرح فارسی اور عربی تراکیب میں ’و‘ استعمال ہوتا ہے جبکہ مقامی اردو تراکیب میں و کا استعمال غلط ہے جیسے چیخ و پکار غلط ہے، چیخ پکار صحیح ہے۔ آمدو رفت اور گفت و شنید چونکہ فارسی کے الفاظ ہیں اس لیے درمیان میں و ٹھیک ہے، اسی اصول کے تحت بھاگ دوڑ، بول چال، دیکھ بھال کے درمیان و نہیں لگایا جاتا۔ ایک اور دلچسپ لفظ ’منتظر‘ ہے جس کا استعمال ظ کے اوپر زبر اور نیچے زیر لگانے سے بدل جاتا ہے۔ منتظر مفعول ہے یعنی جس کا انتظار کیا جائے جبکہ منتظر فاعل ہے یعنی جو انتظار کر رہا ہو۔ منتظر کو علامہ اقبال کیا خوب استعمال کیا ہے : ’کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں، کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں۔ ‘ آپس کی بول چال میں بھی ہم منتظر استعمال نہیں کرتے۔ مثلاً اگر میں کہوں کہ زید میرا منتظر ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ میں زید کا انتظار کر رہا ہوں جبکہ زیر کے ساتھ منتظر فاعل ہے جس کا استعمال یوں ہو گا کہ میں زید کا منتظر ہوں یعنی میں زید کا انتظار کر رہا ہوں۔ اسی سے ملتا جلتا ایک لفظ ’مرتب‘ ہے، ت کے نیچے زیر کے ساتھ فاعل اور ت پر زبر کے ساتھ مفعول۔ یعنی مرتب کا مطلب ترتیب دینے والا اور مرتب کا مطلب ترتیب دی گئی، اس کو مرتب کردہ یا مرتب شدہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مرتبہ بھی لکھ سکتے ہیں، فارسی میں ہ کے اضافے کا مطلب شدہ سمجھا جائے گا، مثلاً یہ کتاب زید کی مرتبہ ہے، مرتب کردہ یا مرتب شدہ ہے، سب کا ایک ہی مطلب ہے۔ اگر لکھا ہو ’مرتب: زید‘ تو اس کا مطلب ہو گا کہ ترتیب دینے والا زید ہے۔ لیکن اگر مرتبہ لکھیں گے تو یہ مرتب کی مونث کے طور پر استعمال ہو گا۔ بے شک زندگی پہلے ہی کافی پیچیدہ ہے۔

کتاب کی بات ہو رہی ہے تو ایک فرق ’ایڈیشن‘ اور ’ری پرنٹ‘ کا بھی سمجھ لینا چاہیے۔ اردو میں اس بارے کچھ ابہام ہے۔ کسی کتاب پر اگر ’دوسرا ایڈیشن‘ لکھا ہو تو اس کا مطلب ہو گا کہ کتاب میں کچھ ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے، اپنے ہاں اسی کتاب کی من و عن دوبارہ اشاعت کو ایڈیشن کہہ دیا جاتا ہے جو غلط ہے، اسے طبع اول، طبع دوم وغیرہ کہنا چاہیے اور اگر کتاب میں کوئی ترمیم و اضافہ ہو تو لکھنا چاہیے کہ طبع اول، دوم یا سوم، ترمیم و اضافے کے ساتھ۔ انگریزی کے الفاظ کا ذکر ہوا ہے تو ایک لفظ جس کا بہت غلط استعمال کیا جاتا ہے vacationہے، اکثر اس کی جمع vacations لکھی جاتی ہے جو کوئی لفظ نہیں، درست استعمال صرف یوں ہے کہ I am on vacation۔ بے شک پورا ملک چھٹیوں پر ہو، لکھنا صرف vacation ہی چاہیے۔ ہیر وارث شاہ میں بھابیاں رانجھے کو طعنہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’کریں آکڑاں کھائی کے دودھ چاول، ایہہ رج کے کھان دیاں مستیاں نے۔ ‘ اس تحریر پر یہ طعنہ خاکسار کو بھی دیا جا سکتا ہے۔

کالم کی دم: مورخ لکھے گا کہ جب ملک ٹوٹنے کی پچاس برس مکمل ہو رہے تھے تو اس وقت ہمارے لکھاری لسانیاتی مباحث میں الجھے ہوئے تھے۔ مورخ کو غلط ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ میں ریکارڈ کے لیے حبیب جالب کا ایک شعر پیش کردوں : ’حسین آنکھوں مدھر گیتوں کے سندر دیش کو کھو کر، میں حیراں ہوں وہ ذکر وادی کشمیر کرتے ہیں۔ ‘

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments