جنرل الیکشن


عمران خان پاکستان کے انیسویں وزیر اعظم ہوں گے۔ اُمید ہے انہیں اُن مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو اُن کے ہر پیشرو کا مقدر ٹھہریں، دُعا ہے کہ وہ اپنے حامیوں کی توقعات پر پورا اُتریں، اپنے سیاسی مخالفین کے اندیشوں کو غلط ثابت کریں اور اپنی پانچ سالہ مُدت پوری کریں۔ توقع ہے کہ اس انتخاب کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی ہے اس پہ کوئی تین حرف نہیں بھیجے گا، نہ ہی اسے چوروں اور ڈاکوئوں کی آماجگاہ قرار دے گا، نہ ہی اس سے غیر حاضر رہے گا اور نہ ہی اس اسمبلی سے اجتماعی استعفیٰ دے کر اس بُری بھلی جمہوریت کو پٹڑی سے اُتارنے کی کوشش کرے گا۔ تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ آپس کے اختلافات کو اسمبلی کے فلور پہ طے کریں کہ یہ مُلک ڈی چوک میں مزید کسی پتلی تماشے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

نئی قومی اسمبلی کی ہیئت پچھلی اسمبلی سے زیادہ مختلف نہیں ہے، وہی خاندان ہیں، وہی برادریاں۔ آصف علی زرداری اور شاہ محمود قریشی صاحبان کی طرح کچھ اصحاب اپنے بچوں سمیت اسمبلی کا حصہ بنے ہیں یا مولانا فضل الرحمٰن اور چوہدری وجاہت حسین کی طرح کچھ کی اگلی نسلیں اسمبلی پہنچی ہیں اور ہمیں اس پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں کہ ہم نے کئی جیّد گویوں کو فخریہ کہتے سنا ہے کہ ’’ہم چودہ پشتوں سے گا بجا رہے ہیں‘‘ اور کئی سپاہی سینہ پھلا کر یہ کہتے پائے گئے کہ ’’سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپاہ گری۔‘‘ ہم نے اُن مغنیوں اور سپاہ گروں پر بھی کبھی تنقید نہیں کی۔

مائنس ون کی اصطلاح فضا میں گونجتی رہتی ہے، مائنس دو سے بہتر تو کوئی اصطلاح نہیں ہے، نہ ہی اُس کی فی الحال کوئی ضرورت ہے۔ تو بنیادی طور پہ اس انتخاب سے ایک آدمی مائنس ہوا ہے اور ایک پلس، باقی اسمبلی جوہری اعتبار سے وہی ہے جو کہ تھی۔ لیکن پھر بھی سب سے درخواست ہے کہ اپنی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر اس اسمبلی کو چوروں اور ڈاکوئوں کی آماجگاہ لکھا اور پکارا نہ جائے۔ ویسے تاریخی طور پہ بھی فرق ایک آدمی کا ہی رہا ہے۔ مسئلہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھا، عبد الحفیظ پیرزادہ یا غلام مصطفیٰ جتوئی تو نہیں تھے۔

موجودہ سیاسی بساط کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالباً نئی اسمبلی، پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران خان اپنی آئینی مدت پوری کریں گے۔ جس کی ایک معقول وجہ تو یہ ہے کہ اور کوئی سیاسی آپشن دور دور تک نظر نہیں آ رہا، نہ اسمبلی کے اندر نہ باہر۔ نواز شریف اور مریم نواز تو کوئی آپشن نہیں ہیں۔ اگر کچھ عرصے بعد بوجوہ وزیرِ اعظم سے دل اُکتا بھی گیا تو کوئی متبادل پی ٹی آئی کے اندر سے ہی تلاش کرنا پڑے گا لیکن ایسے کسی ایڈونچر کے اپنے سنگین مضمرات ہیں۔ پی ٹی آئی عمران خان کی حد تک موروثی جماعت نہیں ہے اور اگر خدانخواستہ خان صاحب کو نااہلی نُما کسی شے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پی ٹی آئی اُن کے بغیر اگلے انتخابات سے پہلے بھک سے ہوا میں تحلیل ہو سکتی ہے لہٰذا فریقین کو برداشت سے کام لے کر یہ رشتہ جیسے تیسے چلانا پڑے گا۔

دوسری طرف سابق نااہل وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اس انتخاب کے بعد ہماری سیاسی تاریخ کے ایک انوکھے کردار کے طور پہ سامنے آئے ہیں۔ میاں صاحب سخت جان تو ہیں لیکن اتنے سخت جان؟ حیرت ہے۔ ان کے خلاف کئی سالوں پہ محیط ایک طویل مہم چلائی گئی جس میں پچھلے ایک سال سے غیر معمولی تُندی آ چکی تھی اور اس کے باوجود وہ پنجاب سے اپنے مخالفین سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ یار لوگوں کے بقول الیکشن 2018 بہرحال پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات بھی نہیں تھے۔ نواز شریف دس سال کی سزا کاٹ رہے ہیں، اُن کی سیاسی جانشین مریم نواز سات سال کے لئے جیل میں ہیں، میاں صاحب تاحیات نااہل ہیں، اہلِ پنجاب پھر بھی اُنہیں ووٹ ڈال رہے ہیں۔ ہم اسّی کی دہائی میں فقرہ سنتے تھے کہ کسی پارٹی کی حکومت اس لئے نہیں توڑی جاتی کہ الیکشن میں اسے دوبارہ جیتنے دیا جائے، لوگ پھر بھی اُنہیں ووٹ ڈال رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت کو انتخابات میں اتنے سخت حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن پھر بھی میاں صاحب کو پنجاب میں سب سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میاں صاحب ایک ایسے نعرے پہ الیکشن لڑ رہے تھے جو اہلِ پنجاب کے لئے یکسر اجنبی ہے، پھر بھی اُنہیں ووٹ پڑا۔ انتخاب 2018 یقیناً اس نعرے کی وجہ سے ہماری سیاسی و انتخابی تاریخ میں Watershed قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ یہ نعرہ مشرقی پاکستان، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تو کئی دہائیاں گونجتا رہا لیکن پنجاب کی فضا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ سے مانوس نہیں تھی۔

ولی خان کہتے تھے کہ جب تک ووٹ کو عزت دو کا نعرہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں نہیں لگے گا وفاق مضبوط نہیں ہو گا۔ خُدا اُن کی بات سچی کرے اور وِفاقِ پاکستان کو استحکام نصیب کرے۔

عالمی سطح پرجو Anti-Politics کی سیاست کا غلغلہ ہے، عمران خان کا Populism بھی غالباً اُسی کی ایک کڑی ہے۔ خان صاحب کی انتخابات میں عدیم المثال کامیابی کا معتبر جائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ انتخابی نتائج کی ثقاہت مسلمہ سمجھی جائے۔ اُمید ہے کہ ہفتہ عشرے میں یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے گا اور الیکشن کمیشن اس ضمن میں ہر طرح کا شُبہ رفع کر دے گا۔ معترضین کیا نکات اُٹھا رہے ہیں؟ ملک بھر کے تمام پولنگ اسٹیشنز پہ ووٹ ڈالنے کا عمل سست رکھا گیا، آر ٹی ایس ناکارہ ثابت ہوا، مسترد شدہ ووٹوں کا تناسب پچھلے انتخاب سے کئی گنا بڑھ گیا، پولنگ ایجنٹس کو فارم 45کی عدم فراہمی اور پولنگ ایجنٹس کو ووٹوں کی گنتی سے پہلے باہر نکال دیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے کئی اعتراضات تو ہر انتخابات میں سننے میں آتے ہیں، لیکن اگر درجنوں پولنگ اسٹیشنز سے پولنگ ایجنٹس کا گنتی سے پہلے نکالا جانا ثابت ہو گیا تو انتخابات ’’کچرا کُنڈی‘‘ قرار پائیں گے، مگر اُمید ہے ایسا نہیں ہو گا۔ اور یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ الیکشن کمیشن ری کائونٹنگ کی درخواستیں کیوں رد کر رہا ہے؟ یہ تو اُمیدواروں کا بنیادی آئینی حق ہے۔ تھیلے کھولنے سے کوئی راز نہیں کھلے گا بلکہ انتخاب کی ساکھ بحال کرنے کے عمل کا آغاز ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).