روپے کی قدر میں کمی یا اضافے کا پاکستانی معیشت پر اثر


کرنسی ریٹ کا اتار چڑھاؤ پاکستان سمیت دنیا بھر کے عام لوگوں کے لئے ایک حساس موضوع ہے کیونکہ اس میں عام لوگوں کے لئے قومی فخر کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ پاکستانی نہیں چاہتے کہ روپیہ کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہو، یہی معاملہ عام یورپین لوگوں کے ساتھ بھی ہے وہ بھی یورو کو ڈالر کے مقابلے میں اوپر دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر اکنامکس کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔

اکنامکس کی رو سے کرنسی محض تبادلہ کا ایک ذریعہ ہے چاہے وہ پیپر نوٹ ہو یا سکہ یا کوئی کارڈ۔ اکنامکس کی رو سے دولت کرنسی میں نہیں قوت خرید میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ افریقہ کے جنگلوں میں پھنس جاتے ہیں۔ ایک قبیلہ میں پہنچتے ہیں۔ کوئی چیز خریدنے کے لئے پاکستانی روپے دیتے ہیں قبائلی لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ تب روپے کی کوئی ویلیو نہ ہو گی۔ وہ ڈالر بھی نہیں لیتے۔ آپ سونا پیش کرتے ہیں یہ سونے پر قائل ہو جاتے ہیں تب سونے میں دولت ہو گی۔ اگر سونا بھی نہیں لیتے مگر انہیں اس ٹوپی میں دلچسپی ہے جو آپ نے سر پر لی ہوئی ہے تب دولت روپے ڈالر اور سونے کے بجائے اس ٹوپی میں ہو گی کیونکہ ایک چیز کا تبادلہ دوسری چیز سے صرف ٹوپی کی بدولت ہو رہا ہے اور قوت خرید صرف ٹوپی میں ہے۔

اگر پیپر کرنسی کو ہی دولت مان لیا جائے جیسا کہ عموما ہوتا ہے تب انٹرنیشنل اکنامکس یہ دیکھتی ہے کہ آیا ایک کرنسی ریٹ ایک ملک کو دوسرے ممالک کے مقابلے میں مسابقتی برتری (Competitive advantage ) دے رہا ہے یا نہیں؟ اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ فرض کیا ایک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر ایک سو روپے ہے۔ اگر یہ قدر مزید کم ہو کر 110 ہو جاتی ہے تو اس سے کیا ہو گا؟

۔ ایکسپورٹر کا فائدہ ہے۔ وہ اپنی ایک چیز عالمی مارکیٹ میں بیچ کر پہلے اگر 100 روپے کما رہا تھا تو اب وہ 110 کمائے گا۔ یوں اس کے نفع میں اضافہ ہو گا۔ نفع میں یہ اضافہ اسے مزید پیداوار کی ترغیب دے گا اور ایکسپورٹ کا حجم بڑھے گا۔

۔ روپے کی قدر میں گراوٹ کا امپورٹر کو نقصان ہے۔ اسے عالمی مارکیٹ میں ایک چیز جو پہلے 100 میں مل رہی تھی اب 110 میں ملے گی۔ یوں امپورٹ کی ترغیب کم ہو گی اور امپورٹر مقامی اشیاء خریدنے پر مجبور ہو گا۔ مگر امپورٹ کو کم کرنے کی اس پالیسی کے تین بڑے نقصان یہ ہیں۔

ایک۔ مشینری کی امپورٹ بھی رک جاتی ہے کیونکہ وہ مہنگی پڑ رہی ہو گی۔ مشینری کی امپورٹ میں کمی کا مطلب طریقہ پیداوار روایتی اور کم جدت پسند ہو گا جس کا ملک کی ایکسپورٹ اور مسابقتی برتری کو نقصان ہے۔

دوم۔ باہر سے سرمایہ کار پاکستان نہیں آئیں گے کیونکہ وہ اپنے نفع کو جب اپنی کرنسی میں تبدیل کروائیں گے تو ان کے نفع کی شرح کم ہو جائے گی۔

سوم۔ امپورٹ میں کمی کا لوگوں کے معیار زندگی پر بھی برا اثر پڑتا ہے کیونکہ انہیں چیزیں مہنگی اور بری کوالٹی کی ملتی ہیں۔ اس کا بزنس کمیونٹی کو بھی نقصان ہے کیونکہ انٹرنیشنل مارکیٹ سے مقابلہ نہ ہونے کے سبب وہ اپنی مسابقتی صلاحیتوں کو ترقی دینے کے بجائے روایت پسندی اور جمود کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

اوپر دیے گئے فوائد اور نقصانات کو دیکھ کر ہی دنیا کے ترقی پزیر ممالک اپنے کرنسی ریٹ کو اس شرح پر مقرر کرتے ہیں جہاں انہیں مسابقتی برتری حاصل ہو۔ کرنسی کی ویلیو کا ڈالر کے مقابلے میں کم یا زیادہ ہونا معیشت کے لئے کوئی بڑا درد سر نہیں۔

جب روپے کی ویلیو میں کمی آتی ہے تو اس کا درج ذیل چیزوں پر اثر دیکھ کر بتایا جاتا ہے کہ اس کا ملک کو نقصان ہے یا فائدہ؟

۔ اگر اس سے مہنگائی میں اضافہ ہو۔ پاکستان میں مہنگائی کے ساتھ ڈالر کا بڑا تعلق تیل کی امپورٹ سے متعلق ہے۔ جب تیل کی قیمتیں سو ڈالر فی بیرل سے اوپر تھیں تو کرنسی کی ویلیو میں ذرا سی کمی پاکستان میں پیداواری لاگت بڑھا دیتی تھی اس وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب جب سے تیل کی قیمت کم ہے روپے کی قدر میں کمی کا مہنگائی پر اثر نہیں دیکھنے میں آیا۔ نواز شریف دور میں مہنگائی کی شرح پاکستان کی بیس سال کی تاریخ میں سب سے کم رہی ہے اور اس پر تیل کی قیمتوں یا کرنسی ریٹ میں تبدیلی کا کوئی بڑا اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔

۔ کرنسی ریٹ میں اگر بہت زیادہ تبدیلی ہو گئی ہے اور یہ مستحکم نہیں ہو رہا تب اس کا باہر کے سرمایہ کاروں کو منفی پیغام جاتا ہے۔ کرنسی کی قدر جتنی بھی ہو لازم ہے کہ مستحکم ہو یا اس میں کم بہاؤ (floatation ) پایا جاتا ہو جیسے ڈالر کے مقابلے میں یورو یا سٹرلنگ وغیرہ کا ریٹ کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے مگر اس میں ایک دم سے بہت زیادہ کمی یا اضافہ بہت کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔

۔ فارن کرنسی میں تبدیلی، فارن کرنسی میں لئے گئے ملکی قرضوں میں بھی اضافہ یا کمی لے آتی ہے۔ مگر میرے خیال میں یہ عنصر بہت زیادہ اہم نہیں اگر آپ کے فارن کرنسی قرضوں کی شرح زیادہ نہیں اور آپ کے پاس قرضے واپس کرنے کے لئے فارن کرنسی بھی موجود ہے تو۔

اس کے علاوہ چند دیگر چھوٹے موٹے فوائد و نقصان ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اسے قومی غرور کی نظر سے دیکھنے کے بجائے معاشی فوائد و نقصان کی نظر سے دیکھا کریں۔ اس میں خاص طور پر دانشوروں کو مشورہ ہے وہ ہمیں اکثر بتاتے ہیں کہ ایوب دور میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی یہ ویلیو تھی اب یہ ہے اور ہائے ہم لٹ گئے برباد ہو گئے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan