پیمرا کے شتر مرغ کی ’اڈاری‘


\"mahnazچند روز قبل حسب عادت صبح سویرے فیس بک کھولی تو نورا لہدی ٰصاحبہ کا غم و غصہ سے بھرا ہوا درج ذیل پیغام پڑھنے کو ملا:

”پیمرا کا یہ نوٹس ثابت کرتا ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سرکاری سطح پراس معاشرے کو برائی کے دلدل میں رکھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں….کہ کارو کاری اور عورت کو جرگہ سسٹم کے سرکس میں پیش کرنے کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ جاہل مولویوں کو بھی اس مقصد کے لئے پشت پناہی دی جاتی رہی ہے۔ اب اس ملک اور سماج کی آنے والی نسلوں کو مفلوج کرنے کا جو بیڑا اٹھایا گیا ہے اس کا ثبوت پیمرا کا یہ نوٹس ہے۔ اس سوال کی بڑی اہمیت ہے کہ روز اول سے ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔ اور اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہر دور کا حکمراں طبقہ، چاہے وردی والے ہوں یا ووٹ والے،نہیں چاہتے کہ یہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر ایک صحت مند قوم ہو،جو سوال کرنے کی جرات کر سکے اور جس کے افراد اپنی جانب اٹھتے ہاتھ کو روکنے کی طاقت رکھتے ہوں،کرب و اضطراب و عذاب میں اس ملک کے تمام افراد اوندھے منہ پڑے رہیں اور ذرا ذرا سا سر اٹھا کر بس صاحب کو سلام کرتے رہیں اور اندھی آنکھوں کے ساتھ اسی سسٹم کو ووٹ ڈالتے رہیں۔ پیمرا کو تو کام ہی یہ سونپا گیا ہے کہ خبردار کوئی اپنا منہ نہ کھولنے پائے۔ دیکھ لیجئے پیمرا ساس بہو کے بد زبان ڈراموں پر تو بہت پر سکون رہتا ہے مگر ادھر معاشرے کی برائی کی طرف اشارہ ہوا اور پیمرا کو اپنا مقصد یاد آ گیا۔ مجھے تو یہ نوٹس پڑھتے ہوئے شرم آ رہی ہے کہ کیا واقعی معاشرے میں ایسے مردوں کی اکثریت ہے جن کے گھٹیا جنسی جذبات کو لذت مل گئی ہے، اڈاری میں نہایت ہی محتاط انداز میں پیش کی گئی معاشر ے کی ایک خوف ناک حقیقت کو دیکھ کر ، جسے ایک نیک مقصد کے تحت بنایا گیا ہے،اس کے پیچھے کشف فاﺅنڈیشن جیسا ادارہ بھی ہے جو اس بھیانک برائی کا شکار ہونے والی بچیوں کی طرف سے آواز اٹھاتا ہے“

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ٹی وی ڈرامے دیکھنے کا وقت نہیں ہوتا لیکن نورا لہدی ٰصاحبہ کا پیغام پڑھ کر مسئلہ سمجھ میں آ گیا تھا اور ہماری ایکٹوزم کی رگ پھڑک اٹھی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے تو ہم نے واٹس ایپ پر ویمنز ایکشن فورم کی ساتھیوں کو اس مسئلہ سے آگاہ کیا بس پھر کیا تھا، پیغامات کی بھر مار ہو گئی، ہمارا فشار خون یہ سوچ کر بھی بلند ہو رھا تھا کہ پیمرا نے آج تک ان پروگراموں کو تو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا جوکبھی مذہبی بنیادوں پر اشتعال پھیلاتے ہیں اور کبھی کاروباری یا سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو لڑاتے ہیں۔

خاور ممتاز صاحبہ کا کہنا تھاکہ آخر ہم کب تک انکار کی کیفیت میں مبتلا رہیں گے۔ کبھی ہم اس بات سے انکاری ہوتے ہیں کہ کچھ گھرانوں میں محرمات کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے، کبھی ہم بیویوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے انکار کرتے ہیں اور اب ہم بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے انکاری ہیں۔ اس طرح کے واقعات روزانہ ہو رہے ہیں لیکن ہم ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کوثر ایس خان صاحبہ کا کہنا تھا کہ یہ تو شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے والا رویہ ہوا، جب معاشرے میں اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں تو ان پر بات کئے بغیر کوئی حل کیسے نکلے گا۔

ماریہ راشد صاحبہ کا کہنا تھا کہ پیمرا کے شو کاز نوٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ ڈرامہ معاشرے میں بد اخلاقی پھیلا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نوٹس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم ایک منافق معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ کوئی سا بھی اخبار اٹھا کے دیکھ لیجئے، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہمارے معاشرے کی بدنما حقیقت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ دراصل اس معاملے کے ساتھ جڑی ہوئی خاموشی، رازداری اور شرمندگی بچوں کو اور بھی زیادہ غیر محفوظ بنا دیتی ہے ۔ زیادتی کا شکار ہونے والے بچے کسی کو بتا بھی نہیں پاتے کہ ان پر کیا گزری ہے۔

اب خاموشی توڑنے کا وقت آ گیا ہے۔

پیمرا کا اس ڈرامہ سیریل کو ممنوع قرار دینے کا فیصلہ بالکل غلط ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے موضوعات پر بات کرنا اور آگاہی پھیلانا بہت ضروری ہے۔ اس ڈرامہ سیریل کو بند کرنے سے قوم کی کوئی خدمت نہیں ہو گی بلکہ پیمرا کو تو چاہئیے کہ وہ طرح کے موضوعات پر ٹاک شوز اور ڈراموں کی حوصلہ افزائی کرے تا کہ والدین اپنے بچوں کی بہتر حفاطت کر پائیں۔

ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ والدین اپنے بچوں سے ان کی جسمانی ساخت اور عمر کے ساتھ رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔ اسی لئے اکثر اوقات تو بچے سمجھ ہی نہیں پاتے کہ چاکلیٹ یا آئس کریم کھلانے کے بہانے ان کے کسی قریبی عزیز نے ان کے ساتھ جو حرکت کی ہے، وہ غلط حرکت تھی اور انہیں اپنے والدین کہ اس بارے میں بتانا چاہئیے۔ مائیں اپنی بچیوں کو یہ نہیں بتا پاتیں کہ بارہ سال کی عمر کے آس پاس حیض آنا شروع ہو گا اور یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ ایک قدرتی اورحیاتیاتی عمل ہے جس کا مقصد تولیدی عمل کے لئے لڑکی کے جسم کی نشوونما کرنا ہے۔ باپ اپنے بیٹے کو یہ نہیں بتا پاتا کہ کس عمر میں اسے ”گیلے خواب“ آنا شروع ہوں گے اور اسے گھبرانے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ والدین کو اور معاشرے کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ لاعلمی کی وجہ سے نوعمر لڑکے غلط راستے پر چل نکلتے ہیں۔ یا پھر اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے بارے میں کسی کو بتانے کی ہمت نہیں کر پاتے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ علم الابدان اور جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ ہونا چاہئے تا کہ بچوں کو صحیح اور غلط میں تمیز ہو سکے اور کوئی ان کا استحصال نہ کر پائے۔

اسی لئے ہم سمجھتے ہیں کہ پیمرا کو نا صرف اڈاری جیسے ڈراموں پر سے پابندی اٹھا لینی چاہئیے۔ بلکہ اس طرح کے مسائل کے بارے میں آگہی پھیلانے اور بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی روک تھام کے لئے زیادہ سے زیادہ پروگرامز نشر کئے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).